کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 417
سیاہ لباس کی شرعی حیثیت سوال:کیا سیاہ لباس پہنا جا سکتا ہے؟ اور کیا ٹھیکے پر کام کرنا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:سیاہ لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس ممانعت کے متعلق کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے بلکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سیاہ لباس زیب تن فرمایا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک چادر کو سیاہ رنگ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زیب تن فرمایا مگر جب اس میں پسینہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اون کی بساند محسوس کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار دیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمدہ خوشبو ہی پسند آتی تھی۔ [1] بلکہ بعض روایات میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ لباس زیب تن فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفید رنگ اور جبہ کا سیاہ رنگ ایک عجیب سماں پیدا کر رہا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید مکھڑے کو دیکھتی اور کبھی جبہ کی سیاہ رنگت کو دیکھتی پھر پسینہ کی وجہ سے ناگوار سی ہوا آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار پھینکا۔ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا کو خود اپنے دست مبارک سے سیاہ چادر پہنائی پھر خود ہی اس کی تحسین فرمائی۔ [3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیارہ رنگ کی پگڑی پہن رکھی تھی، یہ فتح مکہ کے موقع کی بات ہے۔ [4] البتہ محرم کے ایام میں یا کسی مصیبت کے وقت سیاہ رنگ کا لباس پہننے سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ سیاہ رنگ اور لباس کو ایک مخصوص گروہ نے ان ایام میں اظہار سوگ کی علامت قرار دے دیا ہے جبکہ اظہار سوگ کے اس طریقے یا علامت کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) ٭ فقہاء کی اصطلاح میں ٹھیکے پر کام کرنے کو اجارہ کہا جاتا ہے اور ٹھیکہ ہر اس کام میں جائز ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو، نیز ٹھیکہ کا معاوضہ اور اس کی مدت کا معلوم ہونا ضروری ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مزدوری پر کام کرتے تھے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تمام انبیا علیہم السلام بکریاں چراتے رہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا: ہاں! میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض چرایا کرتا تھا۔ [5] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے سفر میں ایک آدمی کو راستہ کی راہنمائی کے لیے ’’اجرت‘‘ پر رکھا تھا، حالانکہ وہ شخص مشرک تھا۔ [6] یہ حدیث بھی ٹھیکہ کے جائز ہونے کی دلیل ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بڑا عنوان ’’کتاب الاجارہ‘‘ قائم کیا ہے، جس میں ٹھیکہ کے متعدد پہلو اور ان کی مشروعیت بیان کی ہے، اس لیے ٹھیکے پر کام کرنا جائز ہے بشرطیکہ معاوضہ اور کام کی مدت معلوم ہو۔‘‘(واللہ اعلم)
[1] ابوداود، اللباس: ۴۰۷۴۔ [2] مسند امام احمد،ص: ۱۳۲،ج۶۔ [3] بخاری، اللباس: ۸۵۲۳۔ [4] ابوداود، اللباس: ۴۰۷۴۔ [5] صحیح بخاری، الاجارہ: ۲۲۶۲۔ [6] صحیح بخاری، الاجارہ: ۲۲۶۳۔