کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 412
کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے ذبح کی تھی۔[1] بہرحال عید الاضحی کے موقع پر قربانی دینے کے لیے ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں، اگر اونٹ میں سات حصے رکھے جائیں تو بھی جائز ہے۔ (واللہ اعلم) بڑی قربانی سے کیا مراد ہے؟ سوال:حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ فَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ﴾[2] ’’ہم نے ایک بڑی قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا۔‘‘ اس بڑی قربانی سے کیا مراد ہے؟ بعض لوگ اس سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی مراد لیتے ہیں، وضاحت فرمائیں۔ جواب:حافظ بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق متعدد اسرائیلی روایات بیان کی جاتی ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم کے بیان کے بعد کسی روایت کی ضرورت نہیں رہتی۔ چنانچہ اس واقعہ کو ایک ’’نمایاں کارنامہ‘‘ کٹھن امتحان کے طور پر بیان کیا ہے اور ذبح عظیم کا بطور فدیہ ذکر کیا ہے البتہ حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ذبح عظیم سے مراد ایک مینڈھا تھا۔[3] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اسے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے، حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آواز دی گئی کہ آپ نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ کا سینگوں اور سرمگیں آنکھوں والا مینڈھا ذبح ہوا پڑا ہے۔ [4] ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم بھی قربانی کے لیے مینڈھوں کی یہی قسم تلاش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ ایک طویل روایت ہے جس سے محدثین کرام نے کئی ایک مسائل کو مستنبط کیا ہے، ہمارے نزدیک ذبح عظیم سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ مراد لینا ایک خاص مکتب فکر کے حاملین کا کشید کردہ مسئلہ ہے، احادیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کے خلاف واقعہ ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت اور شہادت سے ہزاروں سال پہلے ذبح عظیم کا واقعہ ہو چکا تھا۔ (واللہ اعلم) عشرہ ذی الحجہ میں ناخن وبال نہ کاٹنا سوال:ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد بال اور ناخن نہ کاٹنے کی پابندی تمام مسلمانوں کے لیے ہے یا صرف وہ شخص پابندی کرے جس نے قربانی کرنی ہے؟
[1] ابن ماجہ، الاضاحی: ۳۱۳۵۔ [2] ۳۷/الصافات: ۱۰۷۔ [3] البدایہ والنھایہ، ص: ۱۴۹،ج۴۔ [4] مسند امام احمد،ص: ۲۹۷،ج۱۔