کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 411
ہانڈیاں چڑھا دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا پھر آپ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دے کر انہیں تقسیم کیا۔ [1] البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گائے سات آدمیوں کے طرف سے اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے قربان کیا جائے۔‘‘ [2]
اس کے متعلق علما کا مؤقف ہے کہ ان کا تعلق ھدی سے ہے یعنی ان سے مراد وہ قربانی ہے جو حج کے موقع پر کی جاتی ہے، اس موقع پر ایک اونٹ میں صرف سات آدمی ہی شریک ہو سکتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے، صاحب استطاعت اونٹ میں سات اور مالی لحاظ سے کچھ کمزور حضرات اونٹ میں دس شریک ہو سکتے ہیں۔ اکیلا آدمی بھی اونٹ اور گائے کی قربانی کر سکتا ہے۔ بہرحال اونٹ میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں، اسے سفر کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، نیز اگر استطاعت ہو تو سات آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ البتہ ھدی کے اونٹ میں سات افراد ہی شریک ہوں گے۔ (واللہ اعلم)
اونٹ کی قربانی میں حصہ داروں کی وضاحت
سوال اونٹ کی قربانی میں کتنے حصے ہیں، ہمارے حضرات کا کہنا ہے کہ اس میں بھی گائے کی طرح سات حصے ہوتے ہیں جبکہ قبل ازیں ہم اونٹ میں دس حصے رکھتے تھے، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب قربانی کے لیے جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں ان کی دو اقسام ہیں۔ 1) ہدی 2 )اضحیہ
ہدی: وہ جانور ہے جو حرم کی طرف لایا جائے اور حرم میں ہی ذبح کیا جائے، یہ مناسک حج سے ہے۔
اضحیہ: اس جانور کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے عید اور ایام تشریق میں ذبح کیا جائے۔
اگر اونٹ کو ہدی کے طور پر ذبح کرنا ہے تو اس میں سات حصے ہو سکتے ہیں جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا: ’’ہم اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات سات افراد شریک ہو جائیں۔‘‘ [3]
واضح رہے کہ مذکورہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر دیا تھا جیسا کہ حدیث کے آغاز سے معلوم ہوتا ہے اگر اونٹ کو بطور اضحیہ ذبح کرنا ہے تو اس میں دس حصوں کی گنجائش ہے جیسا کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے تو قربانی کا وقت آگیا، ہم اونٹ میں دس آدمی اور گائے میںسات آدمی شریک ہوئے۔[4]
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا تھا۔ [5]
کچھ علما کا یہ موقف ہے کہ اللہ کی طرف سے ایک اونٹ میں دس یا سات آدمیوں کی شرکت ایک رخصت ہے، یعنی اونٹ میں دس آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں اور سات بھی، ویسے اگر استطاعت ہو تو اکیلا آدمی بھی ایک اونٹ یا گائے کی قربانی کر سکتا ہے۔ جیسا
[1] صحیح بخاری، الشرکہ: ۲۵۰۷۔
[2] ابوداود، الضحایا: ۲۸۰۸۔
[3] صحیح مسلم، الحج: ۱۲۱۳۔
[4] ابن ماجہ، الاضاحی: ۳۱۳۱۔
[5] صحیح بخاری، الشرکۃ: ۲۵۰۷۔