کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 406
ہمارے رجحان کے مطابق قربانی کے دنوں میں قربانی ہی کی جائے کیونکہ اس میں سنت کا احیاء، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقہ کی اقتداء ہے۔ (واللہ اعلم) دوتھن والی گائے کی قربانی سوال ہم نے قربانی کے لیے ایک گائے خریدی ہے جس کے پیدائشی طور پر دو تھن ہیں، کیا اس طرح کی گائے قربانی کے لیے جائز ہے؟ جواب قربانی کے لیے درج ذیل عیوب کا خیال رکھنا چاہیے۔ 1) واضح طور پر آنکھ سے کانا ہونا یعنی وہ ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو۔ 2) ایسا بیمار جس کی بیماری نمایاں اور ظاہر ہو۔ 3) ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ 4) ایسا کمزور جس میں چربی کا نشان تک نہ ہو۔ 5) اس کا سینگ ٹوٹا ہوا اور کان کٹا ہوا ہو۔ اسی طرح وہ جانور جو کھیرا ہو اسے بھی قربانی کے طور پر ذبح نہیں کیا جا سکتا، ہاں اگر دو دانتہ دستیاب نہ ہو یا مالی حیثیت اس کی اجازت نہ دیتی ہو تو بھیڑ کا کھیرا بچہ ذبح کیا جا سکتا ہے، اگر کسی مادہ جانور کا تھن خراب ہے یا پیدائشی طور پر اس کے دوو تھن ہیں تو یہ کوئی ایسا عیب نہیں ہے جو قربانی کے لیے رکاوٹ ہو، ایسا جانور ذبح کیا جا سکتا ہے قرآن و حدیث میں اس کے عیب دار ہونے کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) عقیقہ کرنے کے بجائے رقم غرباء کو دے دینا سوال:بچے کی پیدائش پر عقیقہ کرنے کے بجائے اگر اس کی قیمت کسی غریب کو دے دی جائے تاکہ وہ اپنی اس رقم سے کوئی ضرورت پوری کرے تو کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی کریں۔ جواب:عقیقہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہوتا ہے، پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال منڈوائے جائیں۔‘‘ [1] اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولاد ایک بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت کا شکر ادا کرنا ضروری قرار دیا ہے، اس لیے شریعت نے بچے کی پیدائش کے ساتویں روز عقیقہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ اللہ کی نعمت کے حصول پر اس کا شکر بھی ادا ہو جائے اور اقرباء اور دوست و احباب کی ضیافت کے ساتھ ساتھ غرباء اور مساکین کا بھی فائدہ ہو جائے۔ ہمارے رجحان کے مطابق جانور کی قیمت کسی غریب کو دینے کے بجائے جانور ہی ذبح کرنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور ہی ذبح کرنے کا حکم دیا ہے اور عملی طور پر حضرت حسن اور حضرت حسینرضی اللہ عنہ کی پیدائش پر جانور ہی ذبح کیے تھے، اس کے متعلق روایات میں بہت تاکید آئی ہے، اس لیے ولیمہ اور قربانی کی طرح جانور کو ذبح کرنا ہی افضل ہے۔ اتباع سنت کا یہی تقاضا ہے کہ عقیقہ کی رقم کسی کو دینے کی بجائے
[1] ابوداود، الضحایا: ۲۸۳۹۔