کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 397
نام عبداللہ رکھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے گھٹی کے عمل کو ثابت کیا ہے، وہ یہ ہے کہ کھجور یا کوئی بھی میٹھی چیز کوچبا کر نرم کر کے نومولود کے منہ میں ڈالنا، اس کا مقصد ایمان کی نیک فال لینا ہے کیونکہ کھجور کے درخت کو مومن سے تشبیہ دی گئی ہے پھر میٹھی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند بھی کرتے تھے، لہٰذا اسی عمل سے حلاوت ایمان کے لیے نیک فال لینا ہے، خصوصاً گھٹی دینے والا نیک سیرت اور اچھی شہرت کا حامل ہو۔ بازار سے ’’ہمدرد گھٹی‘‘ بھی دستیاب ہے، لوگ اس سے گھٹی کا کام نکال لیتے ہیں لیکن یہ تو پیٹ کی صفائی کے لیے ہوتی ہے، اس سے مسنون گھٹی کا کام نہیں لیا جا سکتا، ہاں اگر کوئی نیک آدمی اسے اپنے منہ میں ڈال کر پھر نومولود کے منہ میں ڈالے تو صحیح ہے، بہرحال گھٹی کے لیے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ کھجور یا کوئی بھی میٹھی چیزشہد وغیرہ۔ کسی بزرگ کا انتخاب، وہ بزرگ اس میٹھی چیز کو پہلے اپنے منہ میں رکھے پھر اسے نومولود کے منہ میں ڈالے اور اس کے لیے خیر و برکت کی دعا کرے، امت کے اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بچے کی ولادت کے موقع پر کھجور کے ساتھ گھٹی دینا مستحب عمل ہے اگر کھجور نہ مل سکے تو کسی بھی میٹھی چیز سے یہ عمل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کام کسی نیک سیرت، بزرگ انسان سے کرایا جائے۔ بچیاں جنم دینے پر طلاق دینا سوال:ہمارے معاشرہ میں بچی کی پیدائش کو اچھا خیال نہیں کیا جاتا بلکہ بعض دفعہ عورت کو بچیاں جنم دینے کی سزا میں طلاق دے دی جاتی ہے،ہماری اس سلسلہ میں راہنمائی کریں۔ جواب:بچی یا بچے کی پیدائش میں انسان بے بس ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ١ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ۰۰۴۹ اَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا١ۚ وَ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا١ ﴾[1] ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹوں سے نوازتا ہے اور جسے چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کردیتا ہے اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے۔ ‘‘ ہمارے معاشرہ میں بچی کی پیدائش پر اظہار ناپسندیدگی جاہلیت کا فعل ہے، اسلام نے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِيْمٌۚ۰۰۵۸ يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا
[1] ۴۲/الشوریٰ:۴۹۔۵۰۔