کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 396
کہاں میسر ہیں، اگر نانی کے ہاں ایسے مواقع ہیں تو بچی کو اس کے ہاں رہنے دیا جائے اور اگر اس کے برعکس وہاں ماحول خراب ہے یا بچی کی پرورش کا وہاں صحیح بندوبست نہیں تو بچی کو باپ کے پاس رہنے دیا جائے۔ واضح رہے کہ یہ استحقاق پرورش اس بچے کے متعلق ہیں۔ جو بچپن میں ہو اور ابھی سن شعور کو نہ پہنچا ہو لیکن وہ تمیز کی عمر کو پہنچ جائے تو صورت مسؤلہ میں باپ کا ہی حق ہے، وہ بچی کا سرپرست ہے اور اس کی تعلیم و تربیت اور شادی وغیرہ کا بندوبست کرے گا۔ بہرحال بچے کی پرورش اور تربیت کو مد نظر رکھنا ہو گا وہ کہاں بہتر ہو سکتی ہے، یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بچہ جہاں بھی ہو گا ماں یا باپ یا کوئی دوسرا ہمدرد رشتہ دار اسے ملنا چاہے تو اس پر ہرگز پابندی نہ لگائی جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’رحم یعنی رشتہ ناطہ عرش سے لٹکا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ جو مجھے ملائے اللہ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے اللہ اسے کاٹے۔‘‘ [1] لہٰذا میل ملاپ پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ (واللہ اعلم) نومولود کو گھٹی دینا سوال:ہمارے ہاں نومولود کو گھٹی دی جاتی ہے، اس کا کیا مقصد ہوتا ہے اور کیا طریق کار ہے، کیا یہ ضروری ہے کہ کسی نیک سیر ت انسان سے گھٹی دلوائی جائے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:گھٹی کی تعریف یہ ہے کہ کوئی نیک سیرت آدمی کھجور یا اس جیسی کوئی میٹھی چیز چبائے، جب وہ باریک ہو جائے تو بچے کا منہ کھول کر اس کے حلق سے چپکا دی جائے تاکہ وہ اس کے پیٹ میں پہنچ جائے۔ یہ عمل مسنون اور مستحب ہے، مدنی زندگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کا بایں طور پر اہتمام کرتے تھے کہ ان کے ہاں جب بھی بچہ پیدا ہوتا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھٹی دلواتے، تاکہ آیندہ اس نومولود میں اس نیک سیرت انسان کی جھلک نظر آسکے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے: 1) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لےکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو اپنے منہ میں چپا کر نرم کیا پھر اسے نومولود کے منہ میں رکھا اور اس کے لیے خیر و برکت کی دعا کی۔ [2] 2) جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے انہیں لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور منگوائی پھر اسے چبایا اور اسے نومولود کے منہ میں رکھ دیا۔ چنانچہ پہلی چیز جو بچے کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔ [3] 3) حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا اور ساتھ کھجوریں بھی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو منہ میں رکھ کر چبایا پھر انہیں اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں رکھ دیا اور اس کا
[1] صحیح مسلم، البروصلہ: ۲۵۵۵۔ [2] صحیح بخاری، العقیقہ: ۵۴۶۷۔ [3] صحیح بخاری، العقیقہ: ۵۴۹۔