کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 391
خاندان سے باہر شادی کرنا
سوال:لوگوں میں مشہور ہے کہ خاندانی عادتیں اور بیماریاں آگے منتقل ہوتی رہی ہیں، اس بنا پر بچوں کے مستقبل کے حوالہ سے خاندان سے باہر شادی کرنا بہتر ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس امر کی وضاحت کریں۔
جواب:اس میں شک نہیں ہے کہ خاندانی موروثی کردار کا ایک اثر ہوتا ہے اور معاشرتی اخلاق و عادت میں خاندانی اور موروثی عادات و اخلاق مستقل طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، جیسا کہ درج ذیل حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری بیوی نے ایک سیاہ رنگ کے بچے کو جنم دیا ہے (جبکہ ہم دونوں میاں بیوی سفید رنگ کے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ’آیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا، جی ہاں اونٹ موجود ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کا رنگ کیسا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا ان کارنگ سرخ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا ان اونٹوں میں کوئی خاکستری رنگ کا اونٹ بھی ہے؟‘‘ اس نے کہاجی ہاں موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ خاکستری رنگ اسے کہاں سے ملا؟‘‘ اس نے جواب دیا ممکن ہے کہ یہ رنگ کوئی رگ کھینچ لائی ہو، دیہاتی کا یہ جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شاید تیرے بیٹے کے اس رنگ کو بھی کوئی رگ کھینچ لائی ہو۔‘‘ [1]
بہرحال نکاح کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینداری کو ترجیح دی ہے خواہ دیندار شخص خاندان میں قریبی رشتہ کی صورت میں ہو یا وہ دور کا رشتہ دار ہو یا وہ خاندان سے باہر ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’عورت سے چار چیزوں کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے، حسب و نصب کی وجہ سے، حسن و جمال کی وجہ سے اور دین و اخلاق کی وجہ سے، تو دیندار خاتون سے شادی کرنے میں کامیابی حاصل کر، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘ [2]
اسلام نے خاندان میں نکاح کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے لیکن اس کی بنیاد موروثی عادات نہیں بلکہ خالص دینداری اور اخلاقی برتری ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ خاندان اور قبیلے تو محض جان پہچان کے لیے ہیں لیکن قرب الٰہی کے حقدار تو یقیناً اہل تقویٰ ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ ﴾[3]
’’اللہ کے ہاں تم سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو زیادہ ڈرنے والا ہے۔‘‘
شادی کے بعد خاوند کی طرف نسبت کرنا
سوال:ہمارے ہاں معاشرتی طور پر خواتین شادی سے پہلے خود کو اپنے والد کی طرف منسوب کرتی ہیں مثلاً: ’’رقیہ محمود‘‘ یعنی محمود کی بیٹی رقیہ لیکن شادی کے بعد اس نسبت کو ترک کر کے اپنے خاوند کی طرف خود کو منسوب کرتی ہیں مثلاً ’’رقیہ عامر‘‘ یعنی
[1] صحیح بخاری، الطلاق: ۵۳۰۵۔
[2] صحیح بخاری، النکاح: ۵۰۹۰۔
[3] ۴۹/الحجرات:۱۳۔