کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 390
اس کے متعلق صریح نص موجود ہے، طلاق قبل از خلوت کی صورت میں عدت ساقط ہو جانے کے معنی یہ ہیں کہ اس صورت میں مرد کا حق رجوع باقی نہیں رہتا اور عورت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ طلاق کے فوراً بعد جس سے چاہے نکاح کرے لیکن یہ حکم صرف طلاق قبل از خلوت کا ہے، اگر نکاح کے بعد خلوت سے پہلے عورت کا شوہر فوت ہو جائے جیسا کہ صورت مسؤلہ میں ہے تو عورت کو عدتِ وفات گزارنا ہو گی، یعنی اسے چار ماہ دس دن تک سوگ کرنا ہو گا، جو کہ منکوحہ مدخولہ کے لیے واجب ہے، اس صورت میں عدتِ وفات ساقط نہیں ہو گی۔ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایسی عورت کے متعلق سوال ہوا تھا، جس کا خاوند اس سے ہم بستری سے پہلے فوت ہو گیا تھا، آیا اس پر عدت ہے یا نہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تھا کہ اس عورت پر عدت گزارنا بھی ضروری ہے، خاوند کے ترکہ سے اسے حصہ بھی ملے گا نیز وہ حق مہر کی بھی حقدار ہو گی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فتویٰ کے بعد حضرت جراح اور ابو سفیانرضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے شہادت دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے خاندان کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے متعلق یہی فیصلہ فرمایا تھا جب کہ اس کا شوہر ہلال بن مرہ اشجعی رضی اللہ عنہ رخصتی سے قبل فوت ہو گیا تھا۔ یہ حدیث سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے کہ میرا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے عین مطابق ہوا ہے۔[1] مندرجہ بالا تصریحات کے مطابق اس بیوی کے لیے ضروری ہے جس کا شوہر قبل از رخصتی فوت ہو گیا ہے کہ وہ چار ماہ دس دن عدت گزارے، اس دوران وہ رنگ دار شوخ قسم کا کپڑا زیب تن نہ کرے، سرمہ اور خوشبو بھی استعمال نہ کرے، مہندی لگانے پر بھی پابندی ہے اس کے علاوہ کنگھی کرنا بھی درست نہیں ہے، یہ تمام پابندیاں احادیث سے ثابت ہیں۔ (واللہ اعلم) قسم کھا کر طلاق کو مشروط کرنا سوال:اگر کوئی بایں انداز قسم کھائے کہ اللہ کی قسم! اگر میںفلاں کام کروںتو میری بیوی کو طلاق ہو، اب وہ آدمی مذکورہ کام کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ میری بیوی کو طلاق نہ ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے، راہنمائی فرمائیں۔ جواب:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ مسئلہ کے متعلق ہماری مکمل راہنمائی فرمائی ہے چنانچہ آپ نے حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’جب تو کسی چیز کے متعلق قسم اٹھائے پھر اس کا غیر اس سے بہتر دیکھے تو وہ کرو جو بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو۔‘‘ [2] خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق فرمایا کہ ’’میں جب بھی کوئی قسم اٹھا لوں پھر کسی دوسری چیز کو اس کے مقابل بہتر خیال کروں تو وہی کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔‘‘ [3] ان احادیث کے پیش نظر وہ اپنی قسم توڑ دے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے اور اس شرط کو ختم کر دے جو اس نے خود پر عائد کر رکھی ہے۔ واضح رہے کہ قسم کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے یا انہیں پوشاک دینا ہے اگر اس کی ہمت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی وضاحت ہے۔ [4](واللہ اعلم)
[1] ابوداود، النکاح: ۲۱۱۶۔ [2] صحیح بخاری، الایمان والنذور: ۶۷۲۲۔ [3] صحیح بخاری: ۶۷۲۰۔ [4] ۵/المائدۃ:۸۹۔