کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 387
اس کو دوران عدت رجوع کرنے کا حق تھا لیکن اتفاق سے اس نے اپنے بچے کو جنم دے دیا اب اس کی عدت بھی پوری ہو چکی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١﴾[1] ’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘ عدت کے ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے، اب تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے، بشرطیکہ مطلقہ بیوی نکاح پر آمادہ ہو اور اس کا سرپرست بھی اس کی اجازت دے، نیز حق مہر بھی نیا ہو گا اس کے ساتھ گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ان چار شرائط کے ساتھ اب نیا نکاح ہو سکتا ہے۔ تجدید نکاح کی رعایت بھی پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے البتہ تیسری طلاق کے بعد کسی صورت میں رجوع نہیں ہو سکتا، مسئلہ کی وضاحت کے بعد ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ آپ کے ذہن نشین کروا دیں کہ طلاق کو مذاق خیال نہ کیا جائے بلکہ اس کا تصور لاتے ہوئے خوب سوچ و بچار کر لیا جائے کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ خاوند، بچوں اور بیوی کے لیے کیا کیا مشکلات پیدا ہوں گی؟ یہ کوئی بجلی کا بلب نہیں ہے کہ ایک خراب ہونے کے بعد دوسرا لگا لیا جائے، نکاح ایک زندگی کا بندھن ہے، جو زندگی میں ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ بہرحال طلاق دینے سے پہلے اس کے نتائج پر نہایت سنجیدگی سے غور کر لینا چاہیے تاکہ اس کے بعد ندامت و شرمساری اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ (واللہ اعلم) باپ کی سالی سے نکاح کرنا سوال:باپ کی سالی سے نکاح کرنا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی کریں۔ جواب:باپ کی سالی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک صورت میں نکاح حرام ہے جبکہ دوسری صورت میں سالی سے نکاح جائز ہے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1) اگر باپ کی سالی برخوردار کی حقیقی خالہ ہے تو اس صورت میں باپ کی سالی سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تمہاری خالائیں حرام کر دی گئی ہیں۔‘‘ [2] 2) اگر باپ نے دوسری شادی کی ہے تو اس صورت میں باپ کی سالی پہلی بیوی کی اولاد کے لیے حقیقی خالہ نہیں ہے، اس صورت میں پہلی بیوی کا کوئی بھی لڑکا اپنے باپ کی منکوحہ کی بہن یعنی اس کی سالی سے شادی کر سکتا ہے، کیونکہ وہ حقیقی خالہ نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ ﴾[3] ’’ان عورتوں کے علاوہ دوسری عورتیں تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘ مذکورہ سوال کے تناظر میں ہم اپنے قارئین سے گزارش کریں گے کہ وہ سوالات کو معمہ کی شکل دینے سے اجتناب کیا کریں کیونکہ اس میں وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔
[1] ۶۵/الطلاق:۴۔ [2] ۴/النساء: ۲۳۔ [3] ۴/النساء:۲۴۔