کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 385
’’اے ایمان والو! جب تم اہل ایمان عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان کے ذمے تمہارا کوئی حق عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرو۔‘‘ اس آیت کے پیش نظر سائلہ کے اہل خانہ کا مؤقف مبنی برحقیقت ہے لیکن انہیں علم نہیں ہے کہ ان کی صاحبزادی نے کچھ عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ اس آیت کریمہ کی حدود سے تجاوز کر چکی ہے، صاحبزادی کے لیے اب یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے والدین کو صورت حال سے آگاہ کر دے اور انہیں بتا دے کہ وہ اب غیر مدخولہ نہیں ہے کہ مذکورہ آیت کے ضابطہ کے تحت آئے، اب اس طلاق کا حکم درج ذیل آیت کے مطابق ہے: ﴿وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ وَ لَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِيْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١﴾ [1] ’’طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض آنے تک روکے رکھیں،انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہے وہ اسے چھپائیں اگر انہیں اللہ پر یقین اور یوم آخرت پر ایمان ہے، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں بشرطیکہ ان کا ارادہ اصلاح کا ہو۔‘‘ صورت مسؤلہ میں خاوند کا حق رجوع صحیح ہے اور سائلہ بدستور اس کی بیوی ہے، اس صورت میں والدین آگے نکاح کرنے کے مجاز نہیں ہیں، سائلہ کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کو پوری صورت حال سے آگاہ کر دے اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھے، انہوں نے جو کچھ کیا ہے معاشرتی طور پر انتہائی قابل اعتراض ہے اگرچہ شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) نافرمانی کی بنا پر طلاق دینا سوال:میری بیوی بے نماز اور نافرمان ہے، کیا اس وجہ سے میں اسے طلاق دے سکتا ہوں؟ نیز بتائیں کہ کن کن حالات میں بیوی کو طلاق دی جا سکتی ہے؟ جواب:نکاح صرف پیاس بجھانے اور افزائش نسل کا ذریعہ نہیں بلکہ شریعت میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو باہمی محبت و یگانگت اور ایک دوسرے سے سکون حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ مرد کو عورت اور عورت کو مرد سے سکون ہوتا ہے اور دونوں میں ایک دوسرے کے لیے اس قدر کشش رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ رہ کر سکون حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ جب مرد دیکھے کہ بیوی میرے لیے جسمانی یا ذہنی سکون کا ذریعہ نہیں بلکہ روح کو بے چین کرنے کا باعث ہے تو پھر نکاح کے بندھن کو کھول دینے پر غور ہو سکتا ہے، سکون و اطمینان کے فقدان کا باعث بیوی کی طرف سے نشوز و نافرمان ہونا ہے، جو طلاق کے لیے تمہید بنتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا١ ﴾ [2]
[1] ۲/البقرۃ: ۲۲۸۔ [2] ۴/النساء: ۳۴۔