کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 38
لکھ دیا ہے تو اس سے نہیں بچ سکے گا اور اگر تو روگردانی کرے گا تو اللہ تجھے تباہ کر دے گا اور میں تو سمجھتا ہوں کہ تو وہی دشمن ہے جس کا حال مجھے اللہ تعالیٰ نے خواب میں دکھایا ہے۔‘‘ [1] بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق مسیلمہ کذاب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔ ایک دوسرے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عنقریب میرے بعد تیس کذاب پیدا ہوں گے، سب کے سب اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کریں گے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘ [2] ہمارے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی ایک جھوٹا مدعی نبوت ہے اور ان احادیث کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے یا کسی مدعی نبوت کی تصدیق کرے وہ کافر اور دین اسلام سے خارج ہے، کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اجماع امت کی تکذیب کی ہے۔ واضح رہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی دعوت نبوت سے پہلے ختم نبوت کاقائل تھا اور نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو کافر سمجھتا تھا، جیساکہ اس نے لکھا ہے: ’’بھلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آئے تو کیسے آئے جب کہ آپ کی وفات کے بعد وحی بند ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا ہے۔‘‘ [3] ایک دوسرے مقام پر لکھتا : ’’مجھے یہ بات زیبا نہیں کہ میں نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافروں سے جا ملوں۔ [4] مرزا قادیانی کی مصنوعی نبوت کے کئی ایک مراحل ہیں، سب سے پہلے اس نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا، اس کے بعد مثیلِ مسیح اور پھر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا، بلکہ بذریعہ کشف و الہام اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کی کشمیر میں نشاندہی بھی کر دی۔ اس کے بعد کھل کر اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور باور کرایا کہ مجھ پر وحی آتی ہے اور (نعوذ باللہ) میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ جب اس پر علماء حقہ نے گرفت کی تو کہنے لگا میں کوئی مستقل نبی یا صاحب شریعت رسول نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے نبی ہوا ہوں اور آپ ہی کا ظل اور بروز ہوں یعنی میں ظلی اور بروزی نبی ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے بتدریج نبوت کے مراحل طے کیے ہیں۔ پہلے مجدد، پھرمثیلِ مسیح اور پھر مسیح موعود، جب کام چلتا دیکھا تو نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ اگر غور کیا جائے تو اس کی تدریجی نبوت ہی اس کے ابطال دعویٰ نبوت کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ سابقہ انبیا علیہم السلام میں سے کوئی نبی بھی بتدریج نبی نہیں بنایا، اس دعویٰ نبوت کی تردید کے لیے درج ذیل باتیں قابل غور ہیں۔ 1) اس نے دعویٰ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے اسے ظلی نبوت کا درجہ حاصل ہوا ہے گویا اس کے نزدیک نبوت وھبی نہیں بلکہ کسبی ہے، جب کہ قرآن کریم نے اس نظریہ کی بھر پور تردید کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ١﴾ [5] ’’اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا کام کس سے لے۔‘‘
[1] صحیح بخاری، المناقب: ۳۶۲۰۔ [2] ابوداود، الفتن: ۲۵۲۴۔ [3] حمامۃ البشری، ص: ۲۰۔ [4] حمامۃ البشری،ص: ۹۷۔ [5] ۶/الانعام: ۱۲۴۔