کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 375
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خلع یافتہ عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ [1]
اس بنا پر صورت مسؤلہ میں عورت کو صرف ایک حیض عدت گزارنا ہے۔ (واللہ اعلم)
زیر تعلیم لڑکی کی عدت
سوال:ایک لڑکی کا خاوند کسی حادثہ میں فوت ہو گیا جب کہ وہ لڑکی کالج میں زیر تعلیم ہے، اس بنا پر اس نے چار ماہ دس دن عدت گزارنی ہے، ایسے حالات میں کیا وہ تعلیم جاری رکھ سکتی ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب:جس عورت کا خاوند فوت ہو گیا ہو، اس کے لیے اسی گھر میں عدت گزارنا ضروری ہے جہاں اس کا خاوند رہائش پذیر تھا، وہ عورت اسی گھر میں سوئے، اس دوران اسے زیب و زینت کی اشیاء استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ خوشبو لگانا، سرمہ استعمال کرنا، خوبصورت کپڑے زیب تن کرنا، البتہ دوران عدت وہ کسی ضرورت کے پیش نظر گھر سے باہر جا سکتی ہے مثلاً وہ کسی ادارہ میں ملازم ہے اور ادارہ کی طرف سے اسے چھٹی نہیں مل سکی تو ملازمت کے لیے ادارہ آنا جانا جائز ہے بشرطیکہ رات کو اپنے گھر آجائے۔ اسی طرح کسی طالبہ کا حصول تعلیم کے لیے کالج یا فہم مسائل کے لیے مدرسہ جانا بھی جائز ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے ان تمام چیزوں سے پرہیز کرنا ہو گا جن سے سوگ منانے والی عورتیں اجتناب کرتی ہیں۔ (واللہ اعلم)
خاوند کا بیوی پر نکاح نہ کرنے کی شرط لگانا
سوال:ایک شوہر نے اپنی بیوی کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ اگر وہ پہلے فوت ہو گیا تو وہ دوسری شادی نہیں کرے گی، اب وہ خاوند فوت ہو چکا ہے۔ کیا وہ عورت اپنے خاوند کے عہد کی پاسداری کرے یا شرعاً وہ نکاح کر سکتی ہے؟
جواب:خاوند کی وفات کے بعد صرف امہات المومنین رضی اللہ عنھم کے لیے پابندی تھی کہ وہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی تھیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا١ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمًا﴾[2]
’’نہ تمہیں یہ جائز ہے کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف دو اور نہ تمہارے لیے یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت آپ کی بیویوں سے نکاح کرو، اللہ کے نزدیک یہ بہت برا گناہ ہے۔‘‘
امہات المومنین رضی اللہ عنھم کے بعد کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بلاوجہ اپنے آپ کو عقد ثانی سے باز رکھے اگرچہ عقد ثانی اس کے لیے واجب یا ضروری بھی نہیں ہے لیکن اس طرح کے عہد و پیمان کی پاسداری بھی ضروری نہیں ہے، حدیث میں ہے: ’’اطاعت صرف نیکی کے کام میں ہے۔‘‘ [3]
ہاں اگر کسی عورت کی اپنے خاوند سے بہت محبت تھی اور وہ جنت میں بھی اس کی رفاقت چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ اس کی
[1] ابوداود، الطلاق: ۲۲۳۰۔
[2] ۳۳/الاحزاب:۵۳۔
[3] مسند امام احمد،ص: ۱۲۴،ج۱۔