کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 374
حضرت زرارہ بن اوفی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ خلفاء راشدین کا یہ فیصلہ ہے کہ نکاح کے بعد جب میاں بیوی اکٹھے ہو جائیں، پردے لٹکا کر دروازے بند کر دئیے جائیں تو اس سے مہر واجب ہو جاتا ہے اور عورت پر عدت گزارنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔[1] حضرت عمر، حضرت علی، حضرت سعید بن مسیب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے بھی یہی ثابت ہے کہ عورت پر عدت گزارنا ضروری ہے اور اسے حق مہر بھی پوا پورا ملے گا۔ [2] عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ایسی حالت میں عورت کو مدخولہ ہی قرار دیا جائے کیونکہ مدخولہ قرار دینے میں میاں بیوی دونوں کا مفاد وابستہ ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ خلاف واقعہ بیان بازی کریں، ایسا کرنے سے شوہر کو نصف مہر سے اور بیوی کو عدت گزارنے سے چھوٹ مل سکتی ہے، اس بنا پر احتیاط اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ خلوت صحیحہ کے بعد اسے مدخولہ ہی قرار دیا جائے اور اس پر عدت گزارنے کی پابندی عائد کی جائے۔ صورت مسؤلہ میں طلاق کے ایک ہفتے بعد عقد ثانی درست نہیں بلکہ فوراً تفریق کرنے کے بعد تجدید نکاح کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ (واللہ اعلم) خلع کی عدت سوال:ہم نے اپنی بیٹی کا خلع بذریعہ عدالت لیا، جبکہ عدالت کے کہنے پر اس کے خاوند نے عدالت میں طلاق نامہ بھی جمع کرا دیا، اب بیٹی کو کون سی عدت گزارنا ہو گا؟ جواب:خلع، عورت کے مطالبہ پر ہوتا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں۔ بیوی خاوند گھر میں اس امر پر اتفاق کر لیں کہ بیوی اپنے خاوند کو طے شدہ حق مہر واپس کر دے اور خاوند اس معاملے کے مطابق اسے طلاق دے دے۔ اگر خاوند اسے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو عورت کو بذریعہ عدالت خلع لینے کا حق ہے اس کی پھر دو صورتیں ہیں پہلی صورت یہ ہے کہ عدالت، خاوندکو طلاق دینے کا نوٹس جاری کرے گی۔ اگر وہ طلاق دے دے تو اس بنیاد پر عدالت تنسیخ کی ڈگری جاری کرنے کی مجاز ہو گی، دوسری صورت یہ ہے کہ عدالت کے کہنے پر خاوند طلاق نہیں دیتا، بار بار یاد دہانی کے باوجود اس پر کان نہیں دھرتا تو ایسے حالات میں عدالت کو اختیار ہے کہ وہ تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کر دے، عدالت کے فیصلے کے بعد عورت صرف ایک حیض آنے کے بعد آگے نکاح کرنے کی مجاز ہے۔ صورت مسؤلہ میں لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کی طرف سے عدالت کی طرف رجوع کیا تاکہ خلع کا فیصلہ لیا جائے، عدالت کے کہنے پر خاوند نے عدالت میں طلاق نامہ جمع کرا دیا۔ چونکہ یہ طلاق، خلع کی بنیاد پر دی گئی ہے اس لیے اس کی عدت ایک حیض ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ایک حیض عدت گزارے۔ [3]
[1] مصنف ابن ابی شیبہ،ص: ۲۳۵،ج۴۔ [2] بیہقی،ص: ۲۵۵،۷۔ [3] ابوداود، الطلاق: ۲۲۲۹۔