کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 373
رہتے ہوئے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر دوبارہ میاں بیوی کا نکاح نہ ہو سکتا ہو۔ صورت مسؤلہ میں یہاں بیوی کی علیحدگی بذریعہ خلع عمل میں آئی ہے لہٰذا اگر عورت اپنے مؤقف سے دستبردار ہو کر دوبارہ اپنے سابقہ خاوند کے ہاں آباد ہونے کی خواہش مند ہے تو شرعی نکاح کرنے کے بعد ازدواجی زندگی گزارنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے البتہ نکاح جدید میں ان تمام شرائط کو ملحوظ رکھنا ہو گا جو نکاح کے لیے ضروری ہے۔ (واللہ اعلم) مطلقہ بیوی کا ایک ہفتہ بعد عقد ثانی کرنا سوال:ایک عورت نکاح کے بعد اپنے خاوند کے پاس صرف دو ماہ رہی، اس دوران خاوند اس کے قریب تک نہیں گیا،پھر اس نے طلاق دے دی، مطلقہ بیوی نے ایک ہفتہ بعد عقد ثانی کر لیا، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ جس عالم دین نے نکاح پڑھایا اس نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، قرآن و حدیث کے مطابق اس کی وضاحت کریں۔ جواب:ہمارے ہاں عام طور پر یہ رواج ہے کہ نکاح کے ساتھ ہی رخصتی ہو جاتی ہے اور اسے شادی کہتے ہیں، تاہم یہ بھی ہوتا ہے کہ پہلے نکاح کر دیا جاتا ہے مثلاً بچپن میں نکاح کر دیا اور رخصتی یا شادی کچھ مدت کے بعد یا زوجین کے جوان ہونے کے بعد ہوتی ہے ، عرب میں یہ عام رواج تھا کہ نکاح پہلے ہو جاتا تھا اور رخصتی بعد میں ہوتی تھی، رخصتی سے قبل طلاق کی صورت میں عورت پر کوئی عدت وغیرہ کی پابندی نہیں ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم چھونے سے پیشتر طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں ہے جس کے پورا ہونے کا تم ان سے مطالبہ کرو۔‘‘[1] صحبت سے پہلے طلاق دینے میں چونکہ حمل وغیرہ کا احتمال نہیں ہوتا لہٰذا غیر مدخولہ عورت پر کوئی عدت نہیں اگر وہ چاہے تو طلاق کے فوراً بعد نکاح کر سکتی ہے۔ صورت مسؤلہ کچھ اس طرح ہے کہ رخصتی عمل میں آچکی ہے اور بیوی اپنے خاوند کے پاس دو ماہ رہی ہے اگرچہ اس دوران خاوند اس کے قریب نہیں گیا اور اس نے طلاق دے دی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت میں خلوت صحیحہ کو صحبت کے مترادف قرار دیا جائے اور بیوی کو عقد ثانی کے لیے عدت کے ایام پورے کرنا ہوں گے یا خلوتِ صحیحہ کو صحبت کے مترادف نہیں خیال کیا جائے گا اور وہ رخصتی عمل میں آنے کے باوجود اس پر عدت وغیرہ گزارنے کی پابند نہیں ہو گی۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایسی عورت کو عدت گزارنا ہو گی اور اسے مدخولہ کا حکم دیا جائے گا، اگرچہ اس دوران شوہر نے اس سے مباشرت نہ کی ہو، کیونکہ فقہاء نے برسبیل احتیاط یہ حکم لگایا ہے کہ اگر خلوتِ صحیحہ عمل میں آجائے جس میں مباشرت ممکن ہو اور وہاں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو اس کے بعد طلاق دینے کی صورت میں عدت لازم آئے گی اور سقوط عدت صرف اس حالت میں ہو گا جبکہ خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق دی گئی ہو، چنانچہ علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اگر عقد صحیح کے بعد خلوت عمل میں آجائے تو مہر پورا دینا ہو گا اور عورت پر عدت گزارنا بھی ضروری ہے اگرچہ اس سے مباشرت نہ کی ہو۔ خلفاء راشدین، حضرت زید اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے ایسا ہی مروی ہے نیز علی بن حسین، عروہ، عطاء، زہری، اوزاعی، امام اسحاق اور اہل رائے کا بھی یہی موقف ہے۔ [2]
[1] ۳۳/الاحزاب:۴۹۔ [2] مغنی، ص: ۵۹،ج۱۰۔