کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 372
عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک مجنون اور نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس کے بعد آپ نے صرف حد لگائی لیکن اس کی بیوی کو اس سے الگ نہ کیا کیونکہ اس حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ [1] ہمارے نزدیک نشہ کی حالت میں عقل ماؤف ہونے کے اعتبار سے دیوانگی کی ہی ایک قسم ہے، جنون کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تین آدمی مرفوع القلم ہیں، ایک سونے والا حتیٰ کہ بیدار ہو جائے دوسرا بچہ حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائے تیسرا پاگل حتیٰ کہ عقل مند ہو جائے۔‘‘ [2] اس بنا پر نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی لیکن اس بات کا بغور جائزہ لینا ہو گا کہ نشے کی حالت میں جب طلاق دی گئی تھی تو اس وقت نشہ ابتدائی مرحلہ میں تھا یا پورے عروج پر تھا، اگر ابتدائی مرحلہ ہے کہ نشہ کرنے والے کا عقل و شعور پوری طرح ختم نہیں ہوا بلکہ اسے طلاق دینے کا علم تھا تو ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر نشہ کرنے والا ایسی حالت میں ہے کہ اسے عقل و شعور نہیں بلکہ اسے طلاق دینے کا قطعاً علم نہیں تو ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہو گی، کیونکہ طلاق دھندہ کی عقل ماؤف ہو چکی ہے جبکہ طلاق کے مؤثر ہونے کے لیے بقائم ہوش و حواس ہونا ضروری ہے۔ (واللہ اعلم) بذریعہ عدالت خلع لینے کے بعد دوبارہ نکاح کرنا سوال ہندہ کی شادی زید سے ہوئی، دو سال بعد ان میں اختلاف پیدا ہو گئے اور ہندہ نے زید سے علیحدگی کا مطالبہ کر دیا اور اپنی مرضی سے بذریعہ عدالت خلع لے لیا، اب ہندہ دوبارہ زید کے ہاں آباد ہونا چاہتی ہے کیا کتاب و سنت کی رو سے ایسا ممکن ہے؟ جواب عائلی زندگی میں شرعی طور پر طلاق دینا خاوند کا حق ہے لیکن اگر میاں بیوی کے تعلقات اس حد تک کشیدہ ہو جائیں کہ باہمی اتفاق کی کوئی صورت نہ رہے اور شوہر طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو ایسے حالات میں اسلام نے عورت کو حق دیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کو کچھ دے دلا کر اس سے خلاصی حاصل کرے، اسے شریعت میں خلع کہتے ہیں، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ میاں بیوی کی ازدواجی زندگی میں حدود اللہ کے پامال ہونے کا اندیشہ ہو، اس وضاحت کے بعد دین اسلام میں میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر دو صورتیں ایسی ہیں کہ وہ عام حالات میں اکٹھے نہیں ہو سکتے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ جب خاوند اپنی زندگی میں وقفے وقفے کے بعد تین طلاقیں دے ڈالے تو ہمیشہ کے لیے مطلقہ عورت اپنے سابقہ خاوند کے لیے حرام ہو جاتی ہے البتہ تحلیل شرعی کے بعد اکٹھا ہونے کی گنجائش ہے واضح رہے کہ تحلیل شرعی مروجہ حلالہ نہیں کیونکہ ایسا کرنا حرام اور باعث لعنت ہے۔ ٭ لعان کے بعد جو جدائی عمل میں آتی ہے وہ آیندہ زندگی میں باہمی نکاح کرنے کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے، کسی بھی صورت میں ان کا آپس میںنکاح نہیں ہو سکتا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ کوئی ایسی صورت نہیں کہ دائرہ اسلام میں
[1] بیہقی، ص: ۳۵۹،ج۷۔ [2] نسائی، الطلاق: ۳۴۳۲۔