کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 370
اور خیر خواہ سر پرست کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ [1] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے موقوف صحیح قرار دیا ہے۔ [2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک معاملہ لایا گیا جس میں نکاح کے وقت صرف ایک مرد اور ایک عورت گواہ تھے تو انہوں نے فرمایا یہ خفیہ نکاح ہے، میں اسے جائز نہیں قرار دے سکتا۔ اگر میں وہاں شریک ہوتا تو انہیں رجم کی سزا دیتا۔ [3] اگر کوئی غلط بیانی کرتا ہے تو عورت کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔ بہرحال ہمارے نزدیک نکاح کے وقت کم از کم دو عادل اور امانت دار گواہوں کا ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے۔ خاوند کے گھر جہیز بھیجنا سوال:ہمارے ملکی رواج کے مطابق شادی کے موقع پر گھریلو سامان عورت کے ورثا تیار کر کے خاوند کے گھر روانہ کرتے ہیں، اگر نہ دیا جائے تو بیوی سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ حق مہر کی رقم سے اسے تیار کرائے یا اپنے سر پرستوں پر زور ڈالے کہ وہ اسے تیار کر کے فراہم کریں، کیا عورت پر یا اس کے سر پرست پر واجب ہے کہ وہ گھریلو سامان تیار کر کے خاوند کو دے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:شرعی طور پر گھر کا سامان شوہر پر واجب ہے، یعنی شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے رہائش کا انتظام کرے اور اس گھر میں ہر قسم کی ضرورت کا سامان مثلاً برتن، بستر اور فرنیچر وغیرہ فراہم کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُ١ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَا١ ﴾[4] ’’کشادگی والے کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے، اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اس میں سے حسب توفیق خرچ کرے اور اللہ تعالیٰ کسی شخص کواس کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ رہائش کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ﴾[5] ’’جہاں تم خود رہتے ہو وہاں اپنی بیوی کو بھی رہائش دو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم پر معروف طریقہ سے ان عورتوں کو کھلانا پلانا، اور انہیں لباس مہیا کرنا لازم ہے۔‘‘ [6] پیش کردہ قرآنی آیات اور حدیث کا تقاضا ہے کہ گھر اور اس کی جملہ ضروریات فراہم کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے، بیوی یا اس
[1] مسند احمد،ص: ۲۵۰،ج۱۔ [2] ارواء الغلیل، ص: ۲۳۹،ج۶۔ [3] مؤطا امام مالک،ص: ۵۳۵،ج۲۔ [4] ۶۵/الطلاق: ۷۔ [5] ۶۵/الطلاق:۶۔ [6] صحیح مسلم، الحج: ۱۲۱۸۔