کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 37
جواب:اللہ تعالیٰ نے حضرت انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع فرمایا اور آخر الزمان رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلہ کو ختم کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نہ ہی وحی کا سلسلہ جاری ہو گا، چنانچہ ختم نبوت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کے انقطاع کا مسئلہ ایسا ہے جس پر تمام امت کا اجماع ہو چکا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ١ ﴾[1] ’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلہ ختم نبوت بہترین پیرایہ میں بیان فرمایا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری اور دیگر انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے ایک مکان تعمیر کیا اور اسے نہایت خوبصورت بنایا، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ چاروں طرف سے اس عمارت کو دیکھتے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ تم نے اس جگہ ایک اینٹ مزید کیوں نہ رکھ دی، چنانچہ میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘ [2] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی قیادت حضرات انبیاء علیہم السلام کے ہاتھ میں تھی، جب ایک نبی علیہ السلام فوت ہو جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، البتہ میرے بعد بکثرت خلفاء ہوں گے۔‘‘ [3] حدیثِ دجال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘ [4] ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے لیے وہی درجہ ہو جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام کا تھا۔ سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘ [5] ان احادیث کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر مدعی نبوت کافر اور دین سے خارج ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں انہیں دیکھ کر میں بہت پریشان ہو گیا، خواب میں مجھے حکم دیا گیا کہ ان پر پھونک مارو، میں نے جب ان پر پھونک ماری تو دونوں رفو چکر ہو گئے، میں نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخص پیغمبری کا دعویٰ کریں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب۔‘‘ [6] اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مسیلمہ کذاب مدینہ طیبہ آیا اور کہنے لگا: اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد مجھے جانشین بنا دیں تو ان کی فرمانبرداری کرنے کو تیار ہوں، مسیلمہ کذاب اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو بھی لایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ تھے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، آپ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا: ’’اگر تم مجھ سے یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دوں گا، جانشینی تو دور کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے تیری تقدیر میں جو
[1] 33/الاحزاب:40 [2] صحیح بخاری،المناقب :3535 [3] صحیح بخاری،احادیث الانبیاء :3455 [4] مسندامام احمد،ص:338،ج 3 [5] ابن ماجه،السنة:121 [6] صحیح البخاری ، المغازی،:4370۔