کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 369
رضاعی بہن بھائیوں کا نکاح کرنا سوال ہسپتال میں دو عورتوں نے بچے جنم دئیے، ایک کے ہاں لڑکی اور دوسری کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، جب وہ شادی کے قابل ہوئے تو ان کی آپس میں شادی کرنا طے پایا، لیکن پتہ چلا کہ پیدائش کے دن غلطی سے ایک کا بچہ دوسری کو مل گیا اور ان دونوں نے انہیں دودھ پلایا اور ان کی پرورش کی، اب کیا ان کا آپس میں نکاح ہو سکتا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیا جائے۔ جواب ہسپتال میں بچوں کی بایں طور پر تبدیلی ممکن ہے لیکن شادی کا پروگرام طے کرتے وقت اس کا اچانک انکشاف عجیب سا معلوم ہوتا ہے بہرحال اگر یہ کوئی فرضی صورت نہیں ہے تو ایسے جوڑے کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق بچے کی ماں وہ ہے جس نے اسے جنم دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا الّٰٓـِٔيْ وَلَدْنَهُمْ١﴾ [1] ’’ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنم دیا ہے۔‘‘ اس آیت کے پیش نظر جس عورت نے بچے کو جنم دیا ہے وہ اس کی حقیقی ماں ہے، پھر غلطی سے تبادلے کے بعد جس عورت کا اس نے دودھ پیا ہے وہ اس کی رضاعی ماں ہے، اسی طرح بچی کا معاملہ ہے، بہرحال یہ دونوں ایک دوسرے کے رضاعی بہن بھائی ہیں، انہیں کسی صورت میں رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ دودھ پینے سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو خونی رشتے حرام ہوتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ [2] نکاح میں گواہ لانا سوال:اسلام میں نکاح کے وقت گواہوں کی کیا حیثیت ہے۔ کیا گواہوں کے بغیر نکاح صحیح ہے؟ اگر ہو سکتا تو عورت کے انکار اور سر پرست کے دھوکہ سے غلط بیانی کا سدباب کیا ہے؟ جواب:نکاح کے وقت جس طرح سر پرست کی اجازت اور عورت کی رضا مندی ضروری ہے، اسی طرح اظہار رضا مندی کے وقت کم از کم دو گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ آیندہ اگر کوئی تنازعہ کھڑا ہو تو دونوں گواہ اپنا کردار ادا کر سکیں، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سر پرست اور دو گواہوں کی بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ [3] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے ’’دو دیانت دار گواہ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ [4] گواہوں میں عدالت بھی شرط ہے کہ وہ اچھے کردار کے حامل اور بہترین اخلاق سے متصف ہوں، اسی طرح سر پرست کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ لڑکی کے لیے خیر خواہی کے جذبات رکھنے والا ہو جیسا کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دو عادل گواہ
[1] ۵۸/المجادلہ:۲۔ [2] صحیح بخاری، النکاح: ۵۰۹۹۔ [3] دارقطنی،ص: ۲۲۵،ج۲۔ [4] بیہقی، ص: ۱۲۵،ج۷۔