کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 367
جواب:شرعی طور پر دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی خاوند پر فرض ہے کہ وہ جب دوسری شادی کرنا چاہے تو پہلی بیوی کو راضی کرے، ہمارے معاشرہ میں ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ البتہ اچھے اخلاق اور حسن معاشرت کا تقاضا ہے کہ خاوند دوسری شادی کرنے سے پہلے اپنی پہلی بیوی کو اعتماد میں لے اور اسے کسی بھی جائز طریقہ سے راضی کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس کے بعد حالات کشیدہ نہ ہوں، کیونکہ ہمارے ہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا جبکہ چوری چھپے یہ ’’فریضہ‘‘ ادا کر لیا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں جب راز کھلتا ہے تو پہلی بیوی سے تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اس بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ حفظ ما تقدم کے طور پر پہلی بیوی کو اعتماد میں لے لیا جائے۔ (واللہ اعلم) اخراجات کے متعلق خاوند کی ذمہ داری سوال:میرا خاوند مالدار ہونے کے باوجود گھریلو اخراجات کے سلسلہ میں کنجوس واقع ہوا ہے، کیا میرے لیے جائز ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر میں گھریلو اخراجات کے لیے اتنی رقم لے لوں جس سے گھر کا نظام بآسانی چل سکے؟ شریعت میں اس کی کہاں تک اجازت ہے؟ جواب:بیوی اور اولاد کا خرچہ خاوند کے ذمے ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ١ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُ١ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَا١﴾[1] ’’کشادگی والے کو اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس پر رزق تنگ کیا گیا ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اس میں سے دے، اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔‘‘ نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تم پر معروف طریقہ کے مطابق ان عورتوں کو کھلانا پلانا اور لباس مہیا کرنا لازم ہے۔ [2] بہرحال شریعت نے خاوند پر خرچہ کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے، جتنی ضرورت ہو اور جتنا ان کو کفایت کر جائے اتنا خرچہ دینا واجب ہے، لیکن اگر کوئی خاوند اس خرچہ سے پہلو تہی کرتا ہے یا دیتا تو ہے لیکن اس سے گھر کا نظام نہیں چلتاتو اتنا خرچہ کسی طریقہ سے بھی لیا جا سکتا ہے جو اہل خانہ کے لیے کافی ہو جیسا کہ حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے جو حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو سفیان ایک کنجوس آدمی ہے، مجھے وہ اتنا خرچہ نہیں دیتا جو میرے لیے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو، مگر میں خفیہ طریقے سے کچھ لے لیتی ہوں کیا ایسا کرنے سے مجھے گناہ نہیں ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معروف طریقہ سے اتنا مال لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو جائے۔‘‘[3] اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل کا پتہ چلتا ہے:
[1] ۶۵/الطلاق: ۷۔ [2] صحیح مسلم، الحج: ۱۲۱۸۔ [3] صحیح بخاری، البیوع: ۲۲۱۱۔