کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 365
ہے، جس سے نکاح جائز نہیں، اس لیے فوراً اسے الگ کر دیا جائے اور بچے وغیرہ والدہ کے ہیں اور وہ اس کے پاس رہیں گے۔ البتہ والد سے بھی اس اولاد کے تعلقات استوار رہنے چاہئیں، اس قسم کا ایک واقعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی پیش آیا تھا۔ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام یحییٰ بنت اھاب سے شادی کر لی، شادی کے بعد ایک سیاہ فام عورت نے کہا کہ میں نے تم دونوں میاں بیوی کو دودھ پلایا ہے، میں نے اسے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں اور نہ تو نے پہلے ہمیں اس قسم کی خبر دی ہے۔ چنانچہ میں نے سواری لی اور فوراً مدینہ منورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنا ماجرہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب وہ عورت اس بات کا دعویٰ کرتی ہے تو اسے صحیح تسلیم کیا جائے، لہٰذا تم اپنی بیوی سے الگ ہو جاؤ، چنانچہ اس کے بعد میں نے مکہ آتے ہی اپنی بیوی کو چھوڑ دیا اور اس نے آگے نکاح کر لیا تھا۔ [1] سوال میں ایک الجھن ضرور ہے کہ والدہ کو اگر اس بات کا علم تھا تو اس نے بوقت نکاح اس کا اظہار کیوں نہ کیا؟ لہٰذا اس بات کی اچھی طرح تحقیق کر لینی چاہیے یا پھر نانی اماں سے اس کی تصدیق کرالی جائے۔ (واللہ اعلم بالصواب) وٹہ سٹہ کی شادی کرنا سوال:اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی کی کیا حیثیت ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ جواب:اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اسلام میں نکاح شغار (وٹہ سٹہ) کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ [2] شغار کی تعریف یہ ہے کہ آپس میں یوں کہا جائے، تو اپنی لڑکی کی شادی مجھ سے اس شرط پر کر دے کہ میں اپنی لڑکی تیرے نکاح میں دیتا ہوں، بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ اس شرط کے ساتھ ساتھ دونوں لڑکیوں کا کوئی الگ حق مہر مقرر نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ مہر ہونے یا نہ ہونے سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ نتائج و عواقب کے لحاظ سے دونوں صورتیں یکساں حکم رکھتی ہیں، اگر ایک لڑکی کا گھر برباد ہوتا ہے تو دوسری بھی ظلم و ستم کا نشانہ بن جاتی ہے، قطع نظر کہ نکاح کے وقت ان کا الگ الگ مہر مقرر کیا گیا تھا یا نہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح کے ایک نکاح کو باطل قرار دیا تھا، حالانکہ ان کے درمیان مہر بھی مقرر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا تھا۔ [3] ہمارے نزدیک اس قسم کے نکاح کی تین صورتیں ممکن ہیں: 1) نکاح کا معاملہ کرتے وقت ہی رشتہ لینے دینے کی شرط کر لی جائے۔ یہ صورت بالکل حرام اور ناجائز ہے۔ 2) نکاح کے و قت شرط تو نہیں کی البتہ آثار و قرائن ایسے ہیں کہ شرط کا سا معاملہ ہے انجام کے لحاظ سے یہ بھی شغار ہے اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ 3) نکاح کے وقت شرط بھی نہیں اور نہ ہی آثار و قرائن شرط جیسے ہیں، اس صورت کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تبادلہ نکاح محض اتفاقی ہے، اس طرح کے نکاح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں متعدد مرتبہ ہوئے ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)
[1] مقدمہ فتح الباری۔ [2] صحیح مسلم، کتاب النکاح:۳۴۶۸۔ [3] ابوداود، کتاب النکاح، باب فی الشغار:۲۰۷۵۔