کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 364
خاوند سے خلع لینا
سوال:ایک عورت اپنے خاوند سے خلع لیتی ہے، پھر رجوع کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے، کیا خلع کے بعد رجوع ہو سکتا ہے نیز زندگی میں کتنی مرتبہ عورت کو خلع لینے کا حق ہے؟ طلاق کے لیے تو تین کی تحدید ہے، خلع کی تحدید بھی ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کے مطابق جواب دیں۔
جواب:میاں بیوی کے لیے دو قسم کی علیحدگی ایسی ہے کہ وہ عام حالات میں دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنے کے اہل نہیں رہتے، ایک تو وقفہ وقفہ سے تین طلاق دینا، اس صورت میں وہ صلح نہیں کر سکتے ہاں اگر تیسری طلاق کے بعد بیوی کسی دوسرے شخص سے اس کے گھر آباد ہونے کا ارادہ لے کرنکاح کرتی ہے پھر وہ فوت ہو جاتا ہے یا اسے طلاق دے دیتا ہے تو عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔ دوسری علیحدگی جو لعان کے بعد عمل میں آئے تو ایسے میاں بیوی زندگی میں کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے، البتہ خلع کے بعد بیوی اگر مؤقف سے دستبردار ہو جاتی ہے تو نئے نکاح سے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکتے ہیں، لیکن خلع کے بعد نکاح کرنے کی صورت میں پھر دوبارہ خلع کا پروگرام بنانا اللہ کی شریعت کو کھلونا بنانے کے مترادف ہے، ہمارے رجحان کے مطابق خلع بھی ایک قسم کی طلاق ہے بلکہ طلاق سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ کیونکہ ایک یا دو طلاق کے بعد دوران عدت تجدید نکاح کے بغیر رجوع کیا جا سکتا ہے ، لیکن خلع کے بعد تو تجدید نکاح کے بغیر رجوع ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے عورت کو زیادہ سے زیادہ زندگی میں دو خلع لینے کا حق ہے جس کے بعد رجوع کیا جا سکتا ہے وہ بھی تجدید نکاح کے ساتھ لیکن تیسری دفعہ خلع لینے کے بعد ہمیشہ کے لیے معاملہ ختم ہو جائے گا، اگرچہ قرون اولیٰ میں اس قسم کا کوئی واقعہ ہماری نظر سے نہیں گزرا تاہم دیگر اشباہ و نظائر کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا یہ رجحان ہے کہ طلاق کی طرح خلع کی تعداد بھی مقرر ہونی چاہیے جو زیادہ سے زیادہ تین ہے، تین دفعہ خلع لینے کے بعد معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
مسئلہ رضاعت
سوال:میری آج سے پانچ سال قبل شادی اپنی خالہ زاد سے ہوئی تھی اور اب ہمارے دو بچے بھی ہیں۔ مجھے والدہ نے کئی مرتبہ بتایا کہ تیری نانی نے کئی مرتبہ تجھے دودھ پلایا تھا، اب میں پریشان ہوں کہ اگر رضاعت ثابت ہو جائے تو تعلقات کیسے ختم کیے جائیں اور بچوں کا کیا بنے گا؟ کتاب و سنت کی روشنی میں میری اس الجھن کو دور فرمائیں۔
جواب:واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ میں خونی تعلق کی بنا پر جو رشتے حرام ہیں دودھ پینے سے بھی وہ حرام ہو جاتے ہیں۔ خونی رشتہ کی وجہ سے حرام ہونے والوں میں بھانجی بھی شامل ہے، نانی کا دودھ پینے سے خالہ زاد بہن، رضاعی بھانجی بن جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’دودھ پینے سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت یعنی خون سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ [1]
صورتِ مسؤلہ میں اگر سائل نے واقعی اپنی نانی کا دودھ پیا ہے تو اس کی خالہ زاد بیوی رضاعی طور پر اس کی بھانجی بن جاتی
[1] صحیح بخاری، کتاب النکاح:۵۰۹۹۔