کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 362
مہر کے عوض اس نے فائدہ حاصل کر لیا ہے، بچوں کی نسبت اس خاوند کی طرف ہو گی۔ (واللہ اعلم) باپ کا بیٹے کی ساس سے نکاح کرنا سوال:ایک نوجوان کا کسی دوشیرہ سے نکاح ہو گیا، اس کے بعد اس نوجوان کی والدہ محترمہ وفات پا گئیں جبکہ اس کا سسر نکاح سے پہلے انتقال کر چکا تھا تو کیا اس نوجوان کا باپ اس کی ساس سے نکاح کر سکتا ہے؟ شریعت کی رو سے جواز ممانعت واضح فرمائیں۔ جواب:قرآن کریم نے تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ کن کن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، ان میں سات خونی، دو رضاعی اور تین سسرالی رشتہ دار خواتین ہیں، اسی طرح بیک وقت دو بہنوں کو اپنے عقد میں رکھنا بھی حرام قرار دیا ہے نیز شادی شدہ منکوحہ عورت سے بھی نکاح حرام ہے، احادیث میں مزید دو رشتوں کی ممانعت کا ذکر ہے کہ پھوپھی، بھتیجی اور خالہ، بھانجی کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جا سکتا، ان محرمات میں بیٹے کی ساس کا کوئی ذکر نہیں ہے لہٰذا اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، قرآن کریم میں ہے: ﴿وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ١ ﴾[1] ’’ان کے ماسوا جتنی بھی عورتیں ہیں انہیں اپنے مال کے ذریعے حاصل کرنا تمہارے لیے جائز قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، محض شہوت زنی نہ ہو۔‘‘ صورتِ مسؤلہ میں نوجوان کا باپ اس کی ساس سے نکاح کر سکتا ہے شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ فون یا انٹرنیٹ پر نکاح کرنا سوال:فون یا انٹر نیٹ پر نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیا جائے، آج کل بکثرت ایسے نکاح ہوتے ہیں۔ جواب:نکاح کے لیے ایجاب و قبول رکن کی حیثیت رکھتا ہے، ایجاب لڑکی والوں کی طرف سے پیشکش ہوتی ہے جبکہ لڑکے والے اس پیش کش کو قبول کر لیتے ہیں، یہ معاہدہ خود زوجین بھی سر انجام دے سکتے ہیں اور ان کے نمائندے بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے کہا کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ میں تمہاری شادی فلاں عورت سے کرا دوں؟ اس نے کہا ’’جی ہاں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے کہا کیا تمہیں پسندہے کہ میں تیری شادی فلاں مرد سے کرا دوں تو اس نے بھی ہاں کہا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی شادی کر ادی۔ [2] پھر نکاح کے لیے مزید چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے، عورت کی رضا مندی، سر پرست کی اجازت، حق مہر کا تعین اور گواہوں کی موجودگی، اگر مذکور ارکان و واجبات اور شرائط نکاح کے موقع پر موجو د ہوں تو نکاح صحیح ہے، بصورت دیگر نکاح درست نہیں ہو گا۔
[1] ۴/النساء: ۲۴۔ [2] ابوداود، النکاح: ۱۹۲۴۔