کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 361
نے اس کا دودھ نہیں پیا ان کا اس سے کوئی رشتہ دودھ کی وجہ سے قائم نہیں ہو گا، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ام یحییٰ بنت ابی اھاب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا تو ایک دوسری عورت نے شہادت دی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اب تم اسے کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو جبکہ رضاعت کی اطلاع دے دی گئی ہے؟‘‘ چنانچہ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو جدا کر دیا تو اس نے کسی دوسرے آدمی سے نکاح کر لیا۔ [1] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے کہ اس عورت نے اپنے خاوند کے بھائی حضرت ظریب بن حارث رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تھا، اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دودھ کا رشتہ صرف دودھ پینے والے تک محدود رہتا ہے، اس کے بہن بھائیوں کو متاثر نہیں کرتا، اس بنا پر جس لڑکی نے کسی عورت کا دودھ پیا ہے تو اس لڑکی کا بھائی، عورت کی اس لڑکی سے شادی کر سکتا ہے جو پہلے خاوند سے ہے، کیونکہ اس لڑکے کا اس عورت اور اس کی بیٹی سے کوئی حرمت کا تعلق قائم نہیں ہوا ہے۔ (واللہ اعلم) نکاح کے وقت حاملہ عورت کے حق مہر کا مسئلہ سوال کسی آدمی نے ایک عورت سے نکاح کیا، کافی دیر بعد پتہ چلا کہ وہ نکاح کے وقت حاملہ تھی، اس کے حق مہر کے متعلق شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے، کیا خاوند کے ذمے اس کی ادائیگی ضروری ہے جبکہ اس سے کچھ بچے بھی پیدا ہو چکے ہیں؟ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں۔ جواب اگر کوئی عورت بوقت نکاح حاملہ تھی تو شرعی طور پر اس کا نکاح صحیح نہیں ہے، مطلقہ عورت کی عدت اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے رحم کے متعلق یقین ہو جائے، اگر حمل ہے تو وضع حمل تک انتظار کیا جائے گا، قرآن پاک میں ہے: ﴿وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١﴾[2] ’’ اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ ‘‘ ایسے حالات میں بیوی خاوند کے درمیان علیحدگی ضروری ہے۔ باقی رہا حق مہر کا مسئلہ تو اس کی حقدار بیوی ہے، خاوند کو واپس نہیں ملے گا، بشرطیکہ دونوں میں خلوت عمل میں آچکی ہو، یا وہ دونوں مباشرت کر چکے ہوں۔ لعان کرنے والے خاوند نے اپنے حق مہر کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’کہ تجھے کوئی مال (حق مہر) واپس نہیں ملے گا کیونکہ اگر تو سچا ہے تو نے اس کی شرمگاہ کو اپنے لیے حلال سمجھا، اس کے عوض تیرا حق مہر ختم ہوا، اگر تو نے ناجائز تہمت لگائی تو بالاولیٰ تو محرومی کے قابل ہے۔‘‘ [3] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: جس نے (نکاح کے بعد) ہمبستری کی ہے حق مہر اس کے لیے ہے۔ [4] ان احادیث کی روشنی میں ہمیں راہنمائی ملتی ہے کہ سرے سے یہ نکاح نہیں ہوا، البتہ حق مہر خاوند کو واپس نہیں ملے گا کیونکہ حق
[1] بخاری الشہادات: ۲۶۶۰۔ [2] ۶۵/الطلاق: ۴۔ [3] صحیح بخاری، الطلاق: ۵۳۵۰۔ [4] صحیح بخاری، الطلاق، باب نمبر۱۲۔