کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 357
کے بعد طلاق دینے سے بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہو جائے گی پھر عام حالات میں رجوع بھی نہیں ہو سکے گا۔ (واللہ اعلم) طلاق دینے کی شرائط سوال:میری بیوی منہ پھٹ اور بدزبان ہے، ایک دفعہ میرا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا ہوا تو میں نے اسے کہا اگر تو خاموش نہ ہوئی تو میں تجھے طلاق دے دوں گا لیکن وہ خاموش نہ ہوئی، میں نے شدید غصے کے عالم میں اسے طلاق دے دی، اب مجھے بتایا جائے کہ ایسی حالت میں طلاق ہو جاتی ہے؟ جواب:اس میں شک نہیں ہے کہ غصہ آگ کا ایک انگارہ ہے جسے شیطان، انسان کے دل میں ڈال دیتا ہے پھر انسان کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، رگیں پھول جاتی ہیں، پھر انسان آپے سے باہر ہو کر اُول فول بکنا شروع کر دیتا ہے، اس قسم کے غصہ میں مبتلا ہونا شریعت کو انتہائی ناپسند ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو یہی وصیت فرمائی تھی، جب اس نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی وصیت فرمائیں! آپ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کر‘‘ اس نے کئی مرتبہ اپنی بات کو دہرایا تو آپ نے ہر دفعہ جواب میں یہی فرمایا: ’’غصہ نہ کیا کر۔‘‘ [1] ٭ طلاق غصہ کی ابتدائی حالت میں دی جائے جب طلاق دینے والے کے ہوش و حواس قائم ہوں اور اسے علم ہو کہ میں منہ سے کیا کہہ رہا ہوں، ایسی حالت میں طلاق ہو جاتی ہے کیونکہ اس نے ایسی حالت میں طلاق دی ہے کہ غصہ آنے کے باوجود اس کے حواس درست تھے اور اپنے اختیار و ارادہ سے یہ کام کیا ہے۔ ٭ دوسری حالت یہ ہے کہ بیوی کو طلاق غصے کی ایسی حالت میں دی جائے کہ انسان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہو، ایسی حالت میں وہ مجنون اور دیوانے کی حالت میں خیال کیا جائے گا اور اس کی طلاق واقع نہیں ہو گی، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’حالت اغلاق میں طلاق نہیں ہوتی۔‘‘ [2] اغلاق سے مراد عقل پر پردہ ڈال دینے والا شدید غصہ ہے، جب انسان بحالت غصہ اس حد تک پہنچ جائے کہ اس کا شعور ختم ہو جائے اور اپنی یادداشت کھو بیٹھے، اسے کچھ معلوم نہ ہو کہ وہ اپنے منہ سے کیا کہہ رہا ہے تو ایسی حالت میں راجح قول کے مطابق طلاق نہیں ہوتی، یہ معلوم کرنا کہ طلاق دہندہ نے غصے کی حالت میں طلاق دی ہے، اس بات کا اندازہ وہ خود ہی لگا سکتا ہے، مطلق طور پر غصہ کی حالت میں طلاق نہ ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ طلاق ہمیشہ غصہ کی حالت میں دی جاتی ہے، کوئی انسان بھی راضی خوشی اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیتا۔ (واللہ اعلم) نکاح کے ساتویں ماہ لڑکا جنم دینا سوال میری بیوی نے نکاح کے ساتویں ماہ لڑکا جنم دیا ہے، میرے دل میں اس کے متعلق بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں، ویسے بیوی کی بدچلنی ظاہر نہیں ہوئی، اب میرے لیے کیا حکم ہے، اسے چھوڑ دوں یا اپنے گھرمیں آباد رکھوں؟
[1] صحیح بخاری، الادب: ۶۱۱۶۔ [2] ابوداود، الطلاق: ۲۱۹۳۔