کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 355
ہو رہا ہے لیکن اس کے لیے اسباب مہیا کرنا اور بھاگ دوڑ کرنا ہماری ذمہ داری ہے، جس طرح حصول رزق کے لیے اسباب تلاش کیے جاتے ہیں، اس طرح مناسب رشتے کے لیے کوشش کرنا ہمارا فرض ہے، تقدیر کے سہارے پر بیٹھے رہنا تو عجز و درماندگی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے۔ عقل اور احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ آسمانوں پر جوڑے بننے کے باوجود ہمیں مناسب رشتہ کے لیے کوشش کرنی چاہیے، قلم کی پیدائش سے لے کر قیامت کے دن تک کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے حکم دیا کہ تو لکھ، اس نے عرض کیا، اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ فرمایا: جو کچھ ہونے والا ہے وہ لکھ دے۔ چنانچہ قلم نے اسی لمحے وہ سب کچھ لکھ دیا جو قیامت تک ہونے والا ہے۔ [1] بہرحال جس طرح رزق لکھا ہوا ہے اور وہ اسباب کے ساتھ مقدر ہے، اسی طرح شادی کا معاملہ بھی لکھا ہوا ہے یعنی میاں بیوی میں سے ہر ایک کے لیے یہ لکھا ہوا ہے کہ اس کی شادی فلاں سے ہو گی، ہمارا یہ ایمان اور عقیدہ ہے کہ دنیا میں جو کام بھی ہوتا ہے وہ اللہ کے علم اور فیصلہ کے عین مطابق ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم) خاوند بیوی کی ناچاقی کا حل سوال:میرا خاوند میرے ساتھ بڑی ترش روئی سے پیش آتا ہے، جبکہ وہ دوسروں کے ساتھ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے، میں اس معاملہ میں بہت پریشان ہوں، ایسے حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے، اس سلسلہ میں میری رہنمائی کریں؟ جواب:شریعت اسلامیہ کا تقاضا ہے کہ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ حسن معاشرت اور اخلاق فاضلہ کا تبادلہ کریں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ ﴾[2] ’’تم ان بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ایمان والوں میں سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے اچھے ہیں۔‘‘ [3] نیز آپ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہے اور میں اپنے اہل خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ [4] علاوہ ازیں بہت سی احادیث ہیں جو مسلمانوں کو عمومی طور پر حسن خلق اور باہمی رواداری کا درس دیتی ہیں۔ میاں بیوی کو تو ان امور کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ بہرحال آپ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، دل برداشتہ ہو کر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو آپ کے لیے دنیا و آخرت میں نقصان کا باعث ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّهٗ مَنْ يَّتَّقِ وَ يَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ﴾[5] ’’یقیناً جو شخص اللہ سے ڈر جائے اور صبر کرے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘
[1] ترمذی، الفتن: ۲۱۵۵۔ [2] ۴/النساء: ۱۹۔ [3] مسند امام احمد،ص: ۴۷۳،ج۲۔ [4] سنن ابن ماجہ، النکاح: ۱۹۷۷۔ [5] ۸/الانفال:۶۴۔