کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 354
انکشافات کی وجہ سے قطع رحمی کر لیتے ہیں، کیا اس جدید طب میں موروثی بیماریوں کا علاج نہیں ہے، اگر ہے تو اسے کیوں نہیں اختیار کیا جاتا؟ بہرحال شریعت نے اس کو کوئی حیثیت نہیں دی ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جگر گوشہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا تھا جبکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خونی رشتہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہماری طرح شبہات میں مبتلا نہیں ہوئے۔ اسے آج کل کی زبان میں کزن میرج کہا جاتا ہے جس کی ممانعت کے لیے جدید طب کا سہارا لیا جاتا ہے شرعاً اس کی کوئی حقیقت نہیں ہمارے نزدیک اس طرح کی سوچ رکھنا قطع رحمی کو ترویج دینا ہے، اگر اس طرح کا کوئی اندیشہ ہو تو سدباب کے طور پر جدید طب سے استفادہ کرنا چاہیے اور اس کے علاج کے لیے کوئی اقدام کرنا چاہیے لیکن قطع رحمی کی اسلام اجازت نہیں دیتا ہے۔ (واللہ اعلم) موبائل کے ذریعہ طلاق دینا سوال:میں نے اپنی بیوی کو موبائل کے ذریعے طلاق کا پیغام بھیجا، میری بیوی کو وقفہ وقفہ سے گیارہ مرتبہ وہ پیغام موصول ہو چکا ہے، کیا وہ ایک طلاق شمار ہو گی یا زیادہ طلاقوں کا اعتبار کیا جائے گا؟ براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:اللہ تعالیٰ نے خاوند کو زندگی بھر تین طلاقیں دینے کا اختیار دیا ہے، پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہے جس کی دو صورتیں ہیں، اگر دوران عدت رجوع کر لیا جائے تو تجدید نکاح کے بغیر ہی گھر آباد کیا جا سکتا ہے اور اگر عدت گزر جانے کے بعد رجوع کا پروگرام بنے تو تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے، اس لیے بیوی کی رضا مندی، سر پرست کی اجازت، حق مہر کا تعین اور گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر تیسری طلاق بھی دے دی جائے تو عام حالات میں رجوع نہیں ہو سکے گا تا آنکہ وہ آباد ہونے کی نیت سے کسی دوسرے خاوند کے ساتھ نکاح کرے، ملاپ کے بعد اگر وہ فوت ہو جائے یا اسے طلاق دے دے تو عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے از سر نو نکاح ہو سکتا ہے، صورت مسؤلہ میں اگر خاوند نے موبائل کے ذریعے طلاق کے پیغام متعدد مجالس میں متعدد مرتبہ ارسال کیے ہیں تو تینوں طلاق واقع ہو چکی ہیں اور اب رجوع کا کوئی موقع نہیں رہا اور اگر خاوند نے صرف ایک مرتبہ طلاق کا پیغام ارسال کیا پھر نیٹ ورک کے ذریعے خود بخود ہی بیوی کو پیغام طلاق موصول ہوتے رہے تو اس صورت میں صرف ایک طلاق ہو گی اور دوران عدت رجوع ہو سکتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد تجدید نکاح سے اپنا گھر آباد کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم) شادی کے جوڑے آسمان پر بنتے ہیں وضاحت سوال:عوام الناس میں یہ بات مشہور ہے کہ شادی کے لیے جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے صحیح صحیح اندازے اور تقدیر کے مطابق