کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 352
کسی حد تک تلافی ہو سکے۔ 2) حق مہر مقرر ہو چکا تھا لیکن صحبت سے پہلے اسے طلاق مل گئی تو خاوند کے ذمے طے شدہ حق مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا، الا یہ کہ مطلقہ بیوی از خود اسے معاف کر دے۔ قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے۔ [1] 3) مہر بھی مقرر ہو اور صحبت یا خلوت میسر آنے کے بعد طلاق ہوئی تو اس صورت میں خاوند کے لیے ضروری ہے کہ وہ پورا حق مہر ادا کرے، عام طور پر یہی صورت پیش آتی ہے۔ 4) مہر طے نہیں ہوا تھا مگر صحبت یا خلوت کے بعد طلاق واقع ہوئی، اس صورت میں مہر مثل ادا کرنا ہو گا یعنی اتنا حق مہر جو اس عورت کے قبیلہ میں عام طور پر رائج ہے۔ صورت مسؤلہ میں اگر حق مہر طے شدہ ہے تو اس کا نصف بیوی کو ملے گا الا یہ کہ وہ فیاضی سے کام لیتے ہوئے نصف حق مہر بھی معاف کر دے یا خاوند سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نصف کے بجائے پورا حق مہر ادا کر دے، اجتماعی زندگی میں خوشگواری پیدا کرنے کے لیے اس قسم کی فیاضی ضروری ہے۔ البتہ ایسی عورت طلاق ملتے ہی عقد ثانی کرنے کی مجاز ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔ [2] محرمات کی وضاحت سوال:میرے سسر کی دو بیویاں ہیں، جس بیوی کی لڑکی میرے عقد میں ہے وہ میری ساس ہے دوسری بیوی کے متعلق شرعی حکم کیا ہے کیا وہ بھی محرمات میں شمار ہو گی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ جواب:بیوی کی والدہ تو محرمات سے ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ …اُمَّهٰتُ نِسَآىِٕكُمْ ﴾[3] ’’اور تمہاری بیویوں کی مائیں بھی حرام ہیں۔‘‘ سسر کی دوسری بیوی، داماد کے لیے اجنبی ہے اور محرمات میں شامل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے محرمات کے بیان کے بعد فرمایا ہے: ﴿وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ ﴾[4] ’’اور ان کے علاوہ دیگر عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔‘‘ قرآن کریم کی اس قطعی نص سے صرف پھوپھی، بھتیجی، اور خالہ، بھانجی کو بیک وقت جمع کرنے کا استثناء احادیث میں آیا ہے، اس کے علاوہ کسی عورت کی حرمت کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے، پھر داماد اور سسر کی دوسری بیوی کے درمیان قرابت اور رشتہ داری نہیں یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی کی حیثیت رکھتے ہیں، ہمارے رجحان کے مطابق سسر کی دوسری بیوی کو اپنے خاوند کے داماد سے پردہ کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ خلوت اور سفر کرنا جائز نہیں، جب کہ حقیقی ساس محرمات میں سے ہے اور اس کے
[1] ۲/البقرۃ: ۲۳۷۔ [2] ۳۳/الاحزاب: ۴۹۔ [3] ۴/النساء: ۲۳۔ [4] ۴/النساء: ۲۴۔