کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 350
مسعود، حضرت عائشہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے متعلق ایسا ہی مروی ہے۔ صورت مسؤلہ میں عبدالحمید نے اپنی پھوپھی کا دو مرتبہ دودھ پیا ہے، اتنی تعداد سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ لہٰذا وہ اپنے بیٹے کی شادی اپنی پھوپھی کی لڑکی سے کر سکتا ہے، اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے، اگرچہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ دودھ تھوڑا یا زیادہ جتنا بھی پی لیا جائے، اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی لیکن ہمارے نزدیک یہ مؤقف صحیح اور صریح احادیث کے خلاف ہے۔ (واللہ اعلم) نکاح متعہ کی وضاحت سوال:آج کل نکاح متعہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے، کیا اسلام میں اس نکاح کی گنجائش ہے؟ اس کے متعلق وضاحت درکار ہے۔ جواب:کسی عورت سے ایک مقررہ مدت تک کے لیے نکاح کرنا متعہ کہلاتا ہے، اس قسم کا نکاح پہلے مباح تھا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم خود کو خصی نہ کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا، پھر ہمیں اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑوں وغیرہ کے عوض نکاح کر لیں، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے درج ذیل آیت تلاوت کی: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ﴾[1] ’’اے ایمان والو! اپنے اوپر ان چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔‘‘ [2] اس کے بعد اس نکاح سے قیامت تک کے لیے روک دیا گیا کیونکہ یہ عارضی رشتہ مقاصد نکاح کے منافی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے موقع پر نکاح متعہ اور پالتوں گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا۔[3] حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ اوطاس کے موقع پر صرف تین دن کے لیے نکاح متعہ کی اجازت دی پھر اس کے متعلق امتناعی حکم جاری کر دیا۔ [4] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران خطبہ فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین مرتبہ نکاح متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام کر دیا، اللہ کی قسم! مجھے کسی بھی شادی شدہ جوڑے کے نکاح متعہ کا علم ہوا تو میں انہیں رجم کروں گا۔ [5] کتب حدیث میں نکاح متعہ کی رخصت کے بعد مختلف مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اس کا منسوخ ہونا مروی ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: درست بات یہ ہے کہ نکاح متعہ دو مرتبہ حرام ہوا اور دو ہی مرتبہ اس کی رخصت دی گئی، چنانچہ یہ غزوۂ خیبر سے قبل حلال تھا پھر اسے غزوۂ خیبر کے موقع پر حرام کر دیا گیا۔ اس کے بعد فتح مکہ کے موقع پر اسے حلال کیا گیا اور (عام اوطاس بھی اسی کو کہتے ہیں) اس کے بعد نکاح متعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔ [6]
[1] ۵/المائدۃ: ۸۷۔ [2] صحیح بخاری، التفسیر: ۴۶۱۵۔ [3] صحیح بخاری، النکاح: ۵۱۱۶۔ [4] صحیح بخاری، النکاح: ۵۱۱۶۔ [5] ابن ماجہ، النکاح: ۱۹۶۳۔ [6] شرح نووی، ص: ۱۸۱،ج۹۔