کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 348
وجہ سے علامہ شوکانی نے مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب قرار دیا ہے، ہمارے رجحان کے مطابق اگر شادی ہال میں اہتمام کے بجائے مساجد کا انتخاب کیا جائے تو انسان کئی ایک قباحتوں ے محفوظ رہتا ہے، اگرچہ شادی ہال میں نکاح کا اہتمام بھی جائز ہے۔ (واللہ اعلم)
فواحش والی دعوت ولیمہ میں شرکت کرنا
سوال:اگر دعوت ولیمہ میں فواحش و منکرات ہوں تو ایسے ولیمہ میں شرکت کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے جبکہ دعوت ولیمہ کو قبول کرنا بھی ضروری ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب:اس میں شک نہیں کہ دعوت ولیمہ قبول کرنا ضروری ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو ولیمے میں شمولیت کی دعوت دی جائے تو اس میں ضرور شرکت کرے۔‘‘ [1]
لیکن وہاں کھانا تناول کرنا ضروری نہیں جیسا کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر چاہے تو کھالے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔‘‘[2]تاہم جن دعوتوں میں فواحش و منکرات ہوں مثلاً گانے اور موسیقی کا اہتمام یا بے پردگی اور مرد و زن کا اختلاط اور انسان انہیں روکنے کی بھی ہمت نہ رکھتا ہو تو اس قسم کی دعوت کو ٹھکرا دینا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے دستر خوان پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے جہاں شراب نوشی ہو رہی ہو۔ [3]
دیگر منکرات کو بھی اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے، اس لیے اگر ولیمہ کی دعوت میں اللہ کی نافرمانی والے کام ہوں اور انسان انہیں روکنے کی ہمت نہ رکھتا ہو تو اس قسم کی دعوت میں شرکت کرنا جائز نہیں، اگر انہیں روکنے کی ہمت رکھتا ہے تو پھر ایسی دعوتوں میں شرکت کی جا سکتی ہے تاکہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سدباب ہو۔ (واللہ اعلم)
دخول سے قبل تین طلاقیں اکٹھی دینا
سوال:ایک آدمی نے نکاح کے بعد بیوی کے پاس جانے سے پہلے ہی اسے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں، کیا وہ شخص دوبارہ اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے؟
جواب:نکاح کے بعد اگر بیوی کے پاس جانے سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی جائے تو اسی وقت نکاح ٹوٹ جاتا ہے، اس صورت میں عورت کے لیے عدت وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! جب اہل ایمان خواتین سے نکاح کرو پھر ان کے پاس جانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان کے ذمہ کوئی عدت نہیں، جسے پورا کرنے کی روادار ہوں۔‘‘ [4]
نکاح ختم ہونے کے بعد دوبارہ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے کے متعلق اس آیت کریمہ میں کوئی اشارہ نہیں، اس کے لیے
[1] صحیح بخاری، النکاح: ۵۱۷۳۔
[2] مسند امام احمد،ص: ۳۹۲،ج۳۔
[3] ترمذی، الادب: ۷۲۷۵۔
[4] ۳۳/الاحزاب: ۴۹۔