کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 346
3) از سر نو حق مہر مقرر کیا جائے۔ 4) گواہوں کی تعیین بھی ضروری ہے۔ بہرحال ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہو گی، دوران عدت نئے نکاح کے بغیر ہی رجوع ممکن ہے، البتہ عدت گزرنے کے بعد تجدید نکاح سے صلح ہو سکے گی۔ (واللہ اعلم) حق مہر کی شرعی حیثیت سوال حق مہر کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس کی کم از کم مقدار کتنی ہے؟ مسنون حق مہر کی وضاحت کریں اگر زندگی میں اسے ادا نہ کیا جائے تو کیا اللہ کے ہاں اس کا مؤاخذہ ہے؟ جواب نکاح کے وقت عورت کے لیے حق مہر مقرر کرنا ضروری ہے اور اس کی ادائیگی واجب ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةً١﴾[1] ’’جن عورتوں سے تم (نکاح کے بعد) فائدہ اٹھاؤ، انہیں ان کا مقرر کردہ حق مہر ادا کرو۔‘‘ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً١﴾[2] ’’عورتوں کو ان کے حق مہر راضی خوشی ادا کرو۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اسے کچھ دو تو انہوں نے عرض کیا: میرے پاس کچھ نہیں ہے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تیری زرہ کہاں ہے۔‘‘[3]ان آیات وحدیث کے پیش نظر حق مہر ضروری ہے، اس کی کم از کم یا زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نکاح کے خواہش مند سے فرمایا تھا کہ جاؤ کچھ تلاش کر کے لاؤ خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو، اسے تلاش بسیار کے باوجود کچھ نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے؟ اس نے عرض کیا ہاں مجھے قرآن کی فلاں فلاں سورت یاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں قرآن کی ان سورتوں کے عوض اس عورت کا مالک بنا دیا۔[4]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی آزادی کو ہی ان کا مہر بنا دیا تھا۔ [5] حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے نکاح کے وقت کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا بطور حق مہر دیا تھا۔ [6] اسی طرح زیادہ سے زیادہ حق مہر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اٰتَيْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَيْـًٔا١﴾[7] ’’تم نے ان عورتوں میں سے کسی کو خزانہ بھی بطور مہر دیا تو اس سے طلاق کے وقت کچھ واپس نہ لو۔‘‘
[1] ۴/النساء: ۲۴۔ [2] ۴/النساء:۴۔ [3] ابوداود، النکاح: ۲۱۲۵۔ [4] صحیح بخاری، النکاح: ۵۰۸۷۔ [5] صحیح بخاری، النکاح: ۵۰۸۶۔ [6] ابوداود، النکاح: ۲۱۰۹۔ [7] ۴النساء:۲۰۔