کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 344
جائے۔ (واللہ اعلم) باپ کی غیر مدخولہ منکوحہ سے نکاح سوال:ایک آدمی نے کسی عورت سے نکاح کیا لیکن رخصتی سے پہلے وہ فوت ہو گیا، اب کیا اس کا بیٹا اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ دیں۔ جواب:صورت مسؤلہ مذکورہ عورت نکاح کے بعد اس آدمی کی بیوی بن چکی ہے، اب اس پر بیوی کے احکام لاگو ہوں گے، وہ حق مہر کی بھی حق دار ہے، اسے ترکہ سے حصہ بھی ملے گا اور اس نے عدتِ وفات چار ماہ دس دن بھی گزارنے ہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس قسم کی عورت کے متعلق سوال ہوا تھا تو انہوں نے جواب دیا پھر اس کی تصدیق قبیلہ اشجع کے چند آدمیوں نے بھی کی تھی کہ یہی فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا جب کہ اس کا خاوند حضرت ہلال بن مرہ اشجعی رضی اللہ عنہ فوت ہو چکے تھے۔ [1] جب مذکورہ عورت باپ کی منکوحہ ہے تو اس سے نکاح نہیں ہو سکتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١﴾ [2] ’’اور جن عورتوں کو تمہارے باپ نکاح میں لا چکے ہیں، تم ان سے نکاح نہ کرو مگر پہلے جو ہو چکا سو ہو چکا۔‘‘ اس آیت کریمہ کا واضح مطلب کہ سوتیلی ماں بھی حقیقی ماں کے مقام پر ہے، اس سے نکاح کرنا انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے، البتہ جو نکاح اس حکم کے آنے سے پہلے ہو چکے تھے وہ کالعدم نہیں ہوں گے او رنہ ہی ان کی پیدا شدہ اولاد حرامی ہو گی، وراثت کے احکام بھی ان پر لاگو ہوں گے لیکن اس حکم کے بعد سوتیلی ماں سے نکاح کرنا حرام ہے، البتہ اگر کوئی شخص رخصتی سے قبل منکوحہ کو طلاق دے دی تو ایسی عورت پر عدت طلاق نہیں ہو گی جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے، البتہ خاوند کے فوت ہونے کی صورت میں وہ اس کے بیٹے کے نکاح میں نہیں آسکے گی، اس بنا پر صورت مسؤلہ میں مذکورہ عورت، خاوند کے بیٹے کی سوتیلی ماں ہے اور اس سے نکاح کرنا حرام ہے جیسا کہ قرآن کریم نے وضاحت فرمائی ہے۔ (واللہ اعلم) اکٹھی تین طلاقیں دے دینا سوال:ہمارے ایک دوست نے اپنی بیوی کو بحالت غصہ اکٹھی تین طلاقیں دے دیں، جب لڑکی والوں کی طرف سے عدالت میں دعویٰ دائر ہوا تو پہلے سے دی ہوئی طلاقوں کو دوبارہ پیش کر دیا گیا، اس بات کو چار سال کا عرصہ بیت گیا ہے، اب فریقین صلح کرنا چاہتے ہیں، کتاب و سنت کی روشنی میں رجوع ہو سکتا ہے؟ اگر ہو سکتا ہے تو کیسے ہو گا؟ جواب:ایک ہی مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینا ہمارے معاشرے کا بہت نازک اور سلگتا ہوا مسئلہ ہے لیکن ہم اس سلسلہ میں بہت لا پروا واقع ہوتے ہیں، اس کی نزاکت کا اندازہ درج ذیل حدیث سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
[1] ابواود، النکاح: ۲۱۱۴۔ [2] ۴/النساء: ۲۲۔