کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 341
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی عورت کسی کا (ولی بن کر) نکاح نہ کرے اور نہ ہی وہ خود اپنا نکاح کرنے کی مجاز ہے، بلاشبہ وہ عورت زانیہ ہے جس نے اپنا نکاح خود کر لیا۔‘‘[1]
ان احادیث سے معلوم ہو اکہ عورت کے نکاح کے لیے سر پرست کی اجازت شرط ہے اور اس کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوتا، اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ صورت مسؤلہ کا نکاح صحیح نہیں ہے، اب ضروری ہے کہ اس جوڑے کے درمیان فوراً تفریق کرا دی جائے، چونکہ یہ تفریق بذریعہ ’’طلاق‘‘ عمل میں آچکی ہے، اگرچہ اس کی ضرورت نہ تھی کیونکہ جیسے نکاح ہی نہیں تو طلاق دینا چہ معنی دارد؟ تاہم قانونی اعتبار سے طلاق کا ہونا مستقبل میں تحفظات کا باعث ہو گا، اب دوبارہ باضابطہ طور پر ان کا باہمی نکاح ہو سکتا ہے، اس باضابطہ نکاح کی چار شرائط حسب ذیل ہیں: 1 عورت کی رضا مندی ہو،2 ولی کی اجازت ہو، 3 حق مہر از سر نو مقرر کیا جائے۔ 4کم از کم دو گواہ موجود ہوں۔
بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق عدالتی نکاح درست نہیں کیونکہ اس میںولی کی اجازت نہیں پائی گئی، تفریق کے بعد دوبارہ باضابطہ طور پر نکاح کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)
گرین کارڈ کے حصول کے لیے نکاح کرنا
سوال ہمارے ہاں اکثر لوگ گرین کارڈ کے حصول کے لیے مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں اور وہاں جا کر کاغذی طور پر ایسی عورت سے شادی کر لیتے ہیں جسے وہاں کی شہریت حاصل ہوتی ہے، تاکہ نکاح کرنے والے کو گرین کارڈ کے حصول میں سہولت رہے کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟
جواب اسلام میں نکاح کے جو مقاصد ہیں وہ متعین ہیں، ان میں سر فہرست حسن معاشرت ہے اور ایک نئے خاندان کی بنیاد رکھنا ہے، صورت مسؤلہ میں نکاح کرتے وقت اس طرح کے مقاصد پیش نظر نہیں ہوتے۔ لہٰذا ایک مسلمان کے لیے ایسے اقدامات جائز نہیں ہیں جن کی شریعت میں گنجائش نہ ہو۔ گرین کارڈ کے حصول کے لیے اس طرح کا فریب کرنا شرعاً جائز نہیں ہے نیز اس میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ عورت ماہانہ ’’وظیفہ‘‘ کے لالچ میں کئی ایک لوگوں سے نکاح کا ڈھونگ رچا لیتی ہے، تاکہ اسے وظیفہ ملتا رہے۔ بعض ایسے واقعات بھی سننے میں آتے ہیں کہ اس طرح کا نکاح کرنے والے ایک دوسرے سے بالکل نا آشنا ہوتے ہیں اور انہوں نے نکاح کے بعد ایک دوسرے کو دیکھنا بھی نہیں ہوتا محض کاغذی کارروائی کی ہوتی ہے جو انٹرنیٹ پر مکمل کر لی جاتی ہے۔ نکاح کرنے والے کا مقصد صرف گرین کارڈ کا حصول اور عورت کا مقصد صرف ماہانہ وظیفہ حاصل کرنا ہے، حسن معاشرت یا خاندان کی بنیاد کا دور، دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ لہٰذا ہمارے رجحان کے مطابق اسطرح کا دھندا شرعاً ناجائز ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
[1] ابن ماجہ، النکاح: ۱۸۸۲۔