کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 340
چچی یا ممانی سے شادی کرنا سوال:کیا انسا ن اپنی چچی یا ممانی سے شادی کر سکتا ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا آیا ہے؟ اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔ جواب:حقیقی چچا کی منکوحہ چچی اور حقیقی ماموں کی منکوحہ ممانی کہلاتی ہے۔ جب چچا یا ماموں فوت ہو جائے یا ان کی منکوحہ کو طلاق مل جائے تو عدت گزارنے کے بعد ان سے نکاح کیا جا سکتا ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں ان سے نکاح کرنے کے متعلق کوئی ممانعت ہماری نظر سے نہیں گزری، قرآن مجید میں متعدد محرمات کا تفصیلی ذکر ہے، جن میں کچھ خونی رشتہ دار ہیں، مثلاً بہن اور بیٹی وغیرہ اور کچھ سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہیں مثلاً خوش دامن وغیرہ۔ جب کہ کچھ عورتیں دودھ کے رشتہ کی بنا پر حرام ہیں مثلاً رضاعی ماں اور رضاعی بہن وغیرہ۔ ان کے علاوہ کچھ رشتے ایسے ہیں جنہیں جمع نہیں کیا جا سکتا، انفرادی طور پر جائز ہیں مثلاً دو بہنیں، خالہ بھانجی اور پھوپھی، بھتیجی وغیرہ۔ اس طرح وہ عورت جو کسی دوسرے کے عقد میں ہے اس سے بھی نکاح نہیں ہو سکتا، چچی اور ممانی ممنوعہ رشتہ نہیں ہے اگر چچا فوت ہو جائے یا وہ اسے طلاق دے دے اسی طرح ماموں فوت ہو جائے یا وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو عدت کے بعد چچی اور ممانی سے نکاح ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ ﴾[1] ’’اور مذکورہ حرام رشتوں کے علاوہ دیگر تمام عورتوں سے نکاح حلال ہے۔‘‘ اس قرآنی نص کے پیش نظر چچی یا ممانی سے نکاح ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ چچا یا ماموں سے فارغ ہو چکی ہوں۔ عدالتی نکاح کی وضاحت سوال:ایک جوڑے کا نکاح عدالتی ہوا، ان کے ہاں تین چار بچے بھی ہیں، اب اس عورت کو طلاق مل گئی ہے، کیا وہ دونوں دوبارہ باہمی نکاح کر سکتے ہیں، یہ بھی واضح کریں کہ اس جوڑے کا جو عدالتی نکاح تھا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب:نکاح کے جائز ہونے کے لیے بنیادی شرط ولی یعنی سر پرست کی اجازت ہے، عدالتی نکاح میں چونکہ ولی کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ اس کی رضا مندی سے بالا بالا نکاح کیا جاتا ہے لہٰذا ایسا نکاح جائز نہیں ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں۔‘‘ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے نکاح کو باطل قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے، آپ نے آخری فقرہ تین مرتبہ دہرایا۔‘‘[3] ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولی کی اجازت کے بغیر خود بخود نکاح کرنے والی عورت کو بدکار کہا ہے۔ حضرت
[1] ۴/النساء: ۲۴۔ [2] ابوداود، النکاح ۲۰۸۵۔ [3] جامع ترمذی، النکاح: ۱۱۰۲۔