کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 337
بیٹے کی غیر مدخولہ منکوحہ سے نکاح کرنا سوال:ایک لڑکے کا کسی لڑکی سے نکاح ہوا۔ لیکن رخصتی سے قبل ہی اس نے طلاق دے دی، کیا لڑکے کا باپ اس لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے؟ جواب:بشرط صحت سوال جب بیٹا کسی عورت سے شادی کر لیتا ہے تو وہ لڑکے کے باپ پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ اگر اس لڑکے نے خلوت سے پہلے طلاق دے دی تو بھی وہ اس کے والد کے لیے حلال نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ حَلَآىِٕلُ اَبْنَآىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ﴾[1] ’’اور تم پر تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں حرام ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ کے پیش نظر مطلق طور پر بیٹے کی منکوحہ باپ کے لیے حرام قرار دی گئی ہے، اس کے ساتھ خلوت کرنے یا نہ کرنے کی کوئی شرط بیان نہیں ہوئی، اس طرح جو لڑکا دودھ کی وجہ سے اس کا بیٹا قرار پایا ہے اس کی بیوی بھی اس پر حرام ہو گی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ [2] اس بنا پر صورت مسؤلہ میں باپ پر بیٹے کی منکوحہ حرام ہے خواہ اس نے خلوت سے پہلے ہی طلاق دے دی ہو۔ بغیر ولی کے نکاح کا حکم سوال:ہمارے ہاں ایسے واقعات بے شمار ہوتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی نکاح پر رضا مند ہوتے ہیں لیکن لڑکی کا ولی راضی نہیں ہوتا، لڑکی اپنے گھر سے بھاگ کر اس سے نکاح کر لیتی ہے، کیا شرعاً ایسا نکاح جائز ہے، اگر ولی نکاح کے بعد راضی ہو جائے تو پھر اس نکاح کا کیا حکم ہے؟ جواب:جو عورت بھی اپنے سر پرست کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر نکاح کرتی ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اسلام ایسے نکاح کو تسلیم نہیں کرتا جو ولی کی اجازت سے بالا بالا کیا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں۔‘‘[3]حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے، آپ نے تین مرتبہ یہ کلمات دہرائے۔‘‘ [4] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی عورت کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ ہی خود اپنا نکاح کرے، بلاشبہ وہ عورت بدکار ہے جس نے اپنا نکاح خود کر لیا۔‘‘ [5]ان احادیث کے پیش نظر ایسا نکاح نہیں ہوتا جو ولی کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہو۔ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ولی کی اجازت اور رضا مندی بنیادی شرط ہے، جب اس ناجائز نکاح کے بعد سر پرست رضا مند ہو جائے تو انہیں نیا نکاح کرنا ہو گا کیونکہ پہلا عقد شرعی شرائط کے مطابق نہ تھا، نکاح جدید سے قبل اس
[1] ۴/النساء: ۲۳۔ [2] ابن ماجہ، النکاح: ۱۹۳۷۔ [3] مسند امام احمد، ص: ۳۹۴،ج۴۔ [4] مسند امام احمد: ۴۷،ج۶۔ [5] ابن ماجہ، النکاح: ۱۸۸۲۔