کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 332
کیا اس صورت میں بھی اسے عدت گزارنا ہو گی، اس پر کیا کیا پابندیاں ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:جس عورت کا نکاح ہوا لیکن رخصتی سے پہلے اس کا خاوند فوت ہو گیا تو اس عورت کو چار ماہ دس دن عدت گزارنا ضروری ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے متعلق فیصلہ فرمایا تھا کہ اس پر عدت گزارنا ضروری ہے۔ [1] عدتِ وفات کا ذکر درج ذیل آیت میں ہے: ﴿ وَ الَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ يَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا١ۚ﴾[2] ’’اور تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور ان کی بیویاں زندہ ہوں تو ایسی بیوائیں چار ماہ دس دن انتظار کریں۔‘‘ جس عور ت کا خاوند فوت ہو جائے اس پر دوران عدت درج ذیل پابندیاں ہیں۔ ٭ جس گھر میں عدت گزار رہی ہے اس سے بلا ضرورت باہر نہ نکلے ہاں اگر بامر مجبوری جانا ہو، یا گھر منہدم ہو جائے تو گھر سے نکل سکتی ہے۔ ٭ اسے خوبصورت لباس زیب تن نہیں کرنا چاہیے خواہ وہ کسی رنگ کا ہو۔ ٭ سونے، چاندی، جواہرات وغیرہ کے زیور بھی استعمال نہ کیے جائیں۔ ٭ عطریات اور خوشبو کا استعمال بھی جائز نہیں۔ ٭ سرمہ وغیرہ بھی استعمال نہ کرے، اسی طرح چہرے کی زیبائش کے لیے جو اشیاء استعمال ہوتی ہیں، ان سے بھی اجتناب کیا جائے لیکن غسل کے وقت صابن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دوران عدت عورت کسی سے گفتگو نہ کرے، فون نہ سنے، گھر میں ننگے پاؤں چلے، چاند کی روشنی میں بھی کمرے سے باہر نہ نکلے، اس قسم کی پابندی لگانا بلا دلیل ہے، شریعت میں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ (واللہ اعلم) چاندی کے برتن میں کھانا پینا؟ سوال:ہمارے پڑوس میں ایک شادی ہوئی، لڑکی امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے والدین کی طرف سے ایک چاندی کا پیالہ بھی دیا گیا ہے، اس پیالہ میں کھانے پینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت کریں۔ جواب:اسلام ہمیں اس قسم کے اسراف کی اجازت نہیں دیتا کہ اپنی دولت کی نمائش کے لیے سونے چاندی کے برتن اپنی بیٹی کو بطور جہیز دئیے جائیں، سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص سونے یا چاندی کے برتنوں میں کھاتا یا پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔‘‘[3]
[1] ابوداود، النکاح: ۲۱۱۶۔ [2] ۲/البقرۃ: ۲۳۴۔ [3] صحیح مسلم، اللباس: ۲۰۶۵۔