کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 330
ہے، ایسے حالات میں اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ دیں۔ جواب:خلع یافتہ عورت کا نکاح خلع کا فیصلہ ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے، لیکن اس عورت کے لیے ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنے کے لیے ایک حیض آنے تک انتظار کرے۔ اس کے بعد نکاح کر سکتی ہے صورت مسؤلہ میں اپنی سزا یافتہ قیدی خاوند سے بذریعہ عدالت خلع لے لیا اور پھر اس نے عدت کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا، اتفاق سے وہ دوسرا خاوند فوت ہو چکا ہے اور اس دوران پہلا خاوند بھی رہا ہو کر آ گیا ہے تو اس صورت میں اس سے نکاح کر سکتی ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، طلاق یافتہ عورت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ١ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَاۤ اَنْ يَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ ﴾[1] ’’پھر اگر مرد (تیسری) طلاق بھی دے دے تو اس کے بعد وہ عورت اس کے لیے حلال نہ رہے گی حتیٰ کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے اگر دوسرا خاوند اسے طلاق دے دے تو پھر پہلا خاوند او ریہ عورت دونوں اگر یہ ظن غالب رکھتے ہوں کہ وہ حدود اللہ کی پابندی کر سکیں گے تو وہ آپس میں رجوع کر سکتے ہیں۔ ‘‘ اگر دوسرا خاوند فوت ہو جائے تو پھر بھی عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے، خلع یافتہ عورت کے لیے بھی یہی حکم ہے بلکہ وہ تو دوسرے نکاح کرنے کے بغیر ہی پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے لیکن جب اس نے دو سرے خاوند سے نکاح کر لیا ہے اور وہ فوت ہو چکا ہے تو عدت گزارنے کے بعد بالا ولی پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔ (واللہ اعلم) رضاعی خالہ سے نکاح کرنا سوال:رقیہ اور بشری دو بہنیں ہیں، بشری نے رقیہ کی بیٹی فاطمہ کو دودھ پلایا یا پھر بشری نے ایک ام کلثوم نامی لڑکی کو بھی دودھ پلایا، اب فاطمہ کا بیٹا بشیر ام کلثوم سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ دیں۔ جواب:سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ بشری نے فاطمہ اور ام کلثوم دونوں کو دودھ پلایا ہے، اس طرح یہ دونوں رضاعی بہنیں ہیں گویا فاطمہ کا بیٹا اپنی رضاعی خالہ سے نکاح کرنے کا خواہش مند ہے، شرعی ہدایت کے مطابق اسے نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ اس کی رضاعی خالہ ہے، ارشاد نبوی ہے: ’’جو رشتے خون کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ رشتے دودھ پینے سے بھی حرام ہو جاتے ہیں ۔‘‘ [2] چونکہ نسبی خالہ حرام ہے اس لیے دودھ شریک خالہ بھی حرام ہے، دودھ کی وجہ سے مندرجہ ذیل رشتے حرام ہو جاتے ہیں۔ ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی اور بھانجی کیونکہ یہ رشتے نسب کی وجہ سے بھی حرام ہیں، اس مسئلہ میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ واضح رہے کہ دودھ کی وجہ سے حرمت دو چیزوں پر موقوف ہے: 1) کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پیا ہو، ایک مرتبہ پینے سے مراد یہ ہے کہ بچہ ماں کے پستان کو منہ میں لے کر دودھ پینا شروع کرے
[1] ۲/البقرۃ: ۲۳۰۔ [2] صحیح بخاری، النکاح: ۵۰۹۹۔