کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 324
ان دو آیات میں عورتوں کے حقوق کو بڑے عمدہ اور جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے، ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی بنیاد یہی دو آیات ہوں، کیونکہ لا پتہ شوہر کی بیوی کو بلاوجہ طویل مدت تک انتظار کرنے کا پابند کرنا حسن معاشرت کے منافی اور اسے تکلیف دینے کے مترادف ہے، ہمارے رجحان کے مطابق امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف صحیح ہے کیونکہ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک فیصلے کی تائید حاصل ہے، معاشرتی حالات بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں لیکن مدت انتظار کا تعین حالات و ظروف کے تحت کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں ذرائع مواصلات اس قدر وسیع اور سریع ہیں جن کا تصور زمانہ قدیم میں محال تھا۔ آج ہم کسی شخص کے گم ہونے کی اطلاع ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے ایک دن میں ملک کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے چند منٹوں میں گم شدہ شخص کی تصویر بھی دنیا کے چپہ چپہ تک پہنچائی جا سکتی ہے، اس بنا پر چار سال کی مدت انتظار کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان ایک سال مدت انتظار کی طرف سے معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی صحیح میں ایسے شخص کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ ’’مفقود الخبر کی بیوی اس کے مال و متاع کا حکم‘‘ [1] لیکن آپ نے واضح طور پر دو ٹوک الفاظ میں اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا، البتہ پیش کردہ احادیث و آثار سے آپ کا رجحان معلوم کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سعید بن مسیب کا فتویٰ نقل کیا ہے کہ جب کوئی سپاہی میدان جنگ میں گم ہو جائے تو اس کی بیوی ایک سال تک انتظار کرے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی پھر لونڈی کا مالک گم ہو گیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک سال تک اس کا انتظار کیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا رجحان بیان کرنے کے لیے حدیث لقطہ کو ذکر کیا ہے کہ اگر کسی کو گرا پڑا سامان ملے تو وہ اس کا سال بھر اعلان کرے۔[2] ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زوجہ مفقود کے لیے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جا سکتا ہے، موجودہ احوالِ و ظروف کے مطابق یہ مؤقف قرین قیاس بھی ہے لہٰذا ذرائع مواصلات اور میڈیا کے پیش نظر دورِ حاضر میں ایک سال کا انتظار کافی معلوم ہوتا ہے، بصورت دیگر قدیم فتویٰ تو اپنی جگہ جمہور علما اسلام اور مفتیانِ کرام کے ہاں رائج چلا آ رہا ہے لیکن عقد نکاح کوئی کچا دھاگہ نہیں ہے جسے آسانی سے توڑ دیا جائے او ریہ ایک ایسا حق ہے جو خاوند کے لیے لازم ہو چکا ہے۔ اس بنا پر اس عقد نکاح کو کھولنے کا مجاز عورت کا شوہر ہے لیکن دفع مضرت کے پیش نظر عدالت، خاوند کے قائم مقام ہو کر فسخ کرنے کی مجاز ہے جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اس لیے گم شدہ خاوند سے خلاصی کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ عورت عدالت کی طرف رجوع کرے، رجوع سے قبل جتنی مدت گزر چکی ہو گی اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا، ہمارے ہاں بعض عورتیں مدت دراز انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر یا اس کا فیصلہ حاصل کرنے سے قبل محض فتویٰ لے کر نکاح کر لیتی ہیں، ان کا یہ اقدام صحیح نہیں ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے مفقود شوہر کا انتظار چار سال تک کرے
[1] صحیح بخاری، الطلاق، باب نمبر۲۲۔ [2] صحیح بخاری، الطلاق، حدیث نمبر: ۵۲۹۲۔