کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 320
فرمائے ہیں جنہیں وہ کام میں لاتا ہے، اعضاء رئیسہ دل، دماغ جگر اور گردے وغیرہ تو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں او ریہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جسم اور اعضاء کا انسان کو مالک نہیں بنایا کہ انہیں جیسے چاہے استعمال کرے یا ان میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرے بلکہ بطور امانت یہ جسم اور اعضاء اس کے حوالے کیے ہیں، قیامت کے دن ان کے استعمال کے متعلق انسان سے باز پرس ہو گی۔ قرآن کریم نے کان، آنکھ اور دل کے متعلق بطور خاص تنبیہہ کی ہے کہ کان، آنکھ اور دل سب کے متعلق اللہ کے ہاں باز پرس ہو گی۔[1] ہمارے رجحان کے مطابق جو لوگ دل، دماغ اور جگر، گردے کے متعلق وصیت کر جاتے ہیں کہ مرنے کے بعد انہیں نکال کر کسی بھی ضرورت مند کو لگا دئیے جائیں، یہ وصیت بے جا تصرف ہے، جس کی انسان کو اجازت ہی نہیں، حدیث میں ایک واقعہ سے اس مؤقف پر روشنی پڑتی ہے: حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی، لیکن مدینہ طیبہ کی آب و ہوا اسے موافق نہ آئی، چنانچہ وہ شخص بیمار ہوا اور تکلیف کے ہاتھوں بے بس ہو کر اس نے برچھے سے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے، جب خون بہنا شروع ہوا تو دونوں ہاتھوں سے اس قدر خون نکلا کہ وہ مر گیا۔ طفیل دوسی رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا تو اس کی شکل اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا، انہوں نے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا کیا؟ اس نے کہا: ہجرت کی وجہ سے مجھے معاف کر دیا ہے پھر پوچھا تو نے ہاتھوں کو کیوں چھپایا ہوا ہے؟ تو اس نے کہا مجھ سے کہا گیا ہے؟ ہم تیرے ہاتھوں کو درست نہیں کریں گے کیونکہ تو خود انہیں خراب کر کے آیا ہے، جب حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! تو اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے۔‘‘ [2] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو انسان وصیت کر کے اپنے اعضاء رئیسہ کو خراب کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی اصلاح نہیں فرمائیں گے۔ لہٰذا اس قسم کی وصیت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۱۷/الاسراء:۳۶۔ [2] مسلم، الایمان: ۳۱۱۔