کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 319
بیوہ کا حصہ سوال:بیوہ، خاوند کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے آگے نکاح کر لیتی ہے، کیا اس صورت میں وہ پہلے خاوند کی جائیداد سے حصہ لے گی؟ جواب:بیوہ کو عدت گزارنے کے بعد عقد ثانی کی اجازت ہے، اس دوران خاوند کی جائیداد کو تقسیم کر دینا چاہیے، اگر کسی وجہ سے جائیداد تقسیم نہیں ہوتی ہے تو عقد ثانی کرنے سے اس کا پہلے خاوند کی جائیداد سے حصہ ختم نہیں ہو جاتا ہے، اگر خاوند کی اولاد ہے تو اسے کل جائیداد سے آٹھواں حصہ اگر اولاد نہیں ہے تو بیوہ چوتھے حصہ کی حقدار ہے، عقد ثانی اس کے وراثتی حصہ پر اثر انداز نہیں ہو گا، ایسی باتیں جہلاء کی پھیلائی ہوئی ہیں۔ نانا کی وراثت سے نواسی کا حصہ سوال;ایک شخص کی وفات کے وقت اس کے تین بھتیجے اور ایک نواسی زندہ تھی، وراثت اس کے بھتیجوں کو مل گئی، کافی عرصہ بعد اس کی نواسی نے عدالت میں دعویٰ کر دیا ہے کہ نانا کی وراثت میں اس کا برابر کا حق ہے، قرآن و حدیث کے مطابق بتایا جائے کہ نواسی کو کچھ حصہ ملتا ہے یا نہیں؟ جواب:قرآن کریم کے ضابطہ وراثت کے مطابق میت کی جائیداد کے سب سے پہلے حقدار وہ ورثاء ہیں جن کے حصص قرآن یا حدیث میں مقرر ہیں۔ جنہیں اصحاب الفروض کہا جاتا ہے۔ ان سے بچا ہوا ترکہ عصبات کو ملتا ہے، صورت مسؤلہ میں نواسی نہ تو اصحاب الفروض سے ہے او رنہ ہی عصبات میں اس کا شمار ہوتا ہے بلکہ نواسی ذوالارحام میں شامل ہے جو اصحاب الفروض اور عصبات کی عدم موجودگی میں وارث ہوتے ہیں، مرحوم کی وفات کے وقت اس کے بھتیجے زندہ تھے۔ ایسے حالات میں ا س کی جائیداد کے وہ وارث ہیں کیونکہ ان کا شمار عصبات میں ہوتا ہے۔ ان کی موجودگی میں نواسی محروم ہے لہٰذا اس کا عدالت میں دعویٰ کرنا درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی اسے مرحوم کی بیٹی کے قائم مقام سمجھ کر وراثت کا حقدار قرار دیا جا سکتا ہے، حدیث میں ہے کہ حصے داروں کو حصہ دینے کے بعد میت کے قریبی مذکر رشتہ دار وارث بنتے ہیں۔ اس حدیث کے پیش نظر بھتیجے قریبی مذکر رشتہ دار ہیں جو وراثت کے حقدار ہوں گے نواسی ان میں شامل نہیں ہے اس بنا پر نانا کی جائیداد سے اس کا کوئی حق نہیں بنتا۔ (واللہ اعلم) اعضاء رئیسہ(دل، جگر ، دماغ، گردوں کی وصیت)کرنا سوال:آج کل میڈیا پر لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ فوت ہونے سے قبل اپنے اعضاء رئیسہ دل، دماغ، جگر اور گردوں کے متعلق وصیت کر دیں کہ یہ فلاح انسانیت کے لیے وقف ہیں او رمیرے فوت ہونے کے بعد انہیں نکالا جا سکتا ہے تاکہ لوگوں کے کام آئیں، کیا ایسا کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ جواب اللہ تعالیٰ کے انسان پر بے شمار احسانات ہیں، ان میں سے ایک بڑا احسان یہ ہے کہ اسے جسم اور اعضا عطا