کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 318
باری تعالیٰ ہے: ’’والدین اور قریبی رشتہ دار جو ترکہ چھوڑیں، اس میں مردوں اور عورتوں دونوں کا حصہ ہے۔‘‘ [1] ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ١ ﴾[2] ’’اور بعض ذوی الارحام دوسروں کے مقابلہ میں کتاب اللہ کی رو سے (وراثت لینے کے) زیادہ مستحق ہیں۔‘‘ ان آیات کی روشنی میں رضاعی بیٹے کا ترکہ سے کوئی حصہ نہیں ہے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور خونی رشتہ ہے تو کسی اور صورت میں اسے وارث بنایا جا سکتا ہے مثلاً بھتیجے کو کسی عورت نے دودھ پلایا ہے تو اگر کوئی قریبی رشتہ نہ ہو تو اسے بھتیجا ہونے کی حیثیت سے وارث بنایا جا سکتا ہے، اگر مرنے والے نے اپنے رضاعی بیٹے کے حق میں وصیت کی ہو تو بھی ترکہ سے وصیت کے طور پر حصہ دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ وصیت کل ترکہ کا 3/1 (ثلث) یا اس سے کم ہو، جیسا کہ احادیث میں اس کی وضاحت ہے، ان صورتوں کے علاوہ رضاعی بیٹے کو وارث بنانا شرعاً ناجائز ہے اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کی حق تلفی ہے، جس کے متعلق قیامت کے دن اللہ کے ہاں باز پرس ہو گی، لہٰذا بے اولاد حضرات کو اس پہلو پر غور کر لینا چاہیے، ویسے بھی اسلام نے لے پالک بنانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی کیونکہ اس میں بہت سی قباحتیں ہیں، بس ایسا کرنے سے دل کو ایک موہوم سی تسلی ہو جاتی ہے، ہمارے رجحان کے مطابق اس کے فائدے کے مقابلہ میں نقصانات زیادہ ہیں۔ (واللہ اعلم) پس ماندگان میں صرف ماں ہو تو تقسیم؟ سوال:ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں صرف اس کی والدہ زندہ ہے، کیا ایسے حالات میںترکہ کی حقدار اس کی والدہ ہو گی؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:علم میراث میں وہ چھوٹے سے چھوٹا ہندسہ جسے بنیاد بنا کر حصے تقسیم کیے جاتے ہیں، اسے اصل مسئلہ یا مخرج کہتے ہیں، اگر مقررہ حصے حقداروں کو دینے کے بعد اصل مسئلہ سے بچ جائے اور کوئی عصبہ وغیرہ نہ ہو تو باقی ماندہ حصے بیوی خاوند کے علاوہ دیگر ورثاء پر ہی لوٹادئیے جاتے ہیں، اس لوٹا دینے کے عمل کو ردّ کہا جاتا ہے، صورت مسؤلہ میں والدہ کا مقررہ حصہ ایک تہائی ہے، اصل مسئلہ تین سے ہو گا، والدہ کو مقررہ حصہ دینے کے بعد دو حصے بچ جاتے ہیں جو دوبارہ اسے دے دئیے جائیں گے۔ اس ردّ کے کئی ایک قاعدے ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ اگر مقررہ حصہ لینے والا ایک ہے اور کوئی دوسرا وارث زندہ نہیں تو تمام جائیداد اسی وارث کو دےدی جاتی ہے جیسا کہ مذکورہ صورت میں تیسرا حصہ اصحاب الفروض کی حیثیت سے اور باقی دو حصے ردّ کی حیثیت سے مل گئے ہیں، اگر ماں کے ساتھ کوئی دوسرا عصبہ وارث ہوتا تو باقی ماندہ ترکہ اسے ملنا تھا چونکہ دوسرا کوئی وارث موجود نہیں ہے، لہٰذا تمام جائیداد کی حقدار مرنے والے کی ماں ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۴/النسا:۷۔ [2] ۸/الانفال:۷۵۔