کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 317
فوت شدہ بیٹے کا حصہ نکالنا سوال:فوت شدہ بیٹا اپنے والد کی جائیداد کا شرعی وارث ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اگر قانونی لحاظ سے کوئی جائیداد فوت شدہ بیٹے کے نام منتقل ہو چکی ہے تو کیا شرعاً اس کی اصلاح ہو سکتی ہے اور اسے واپس لیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیا جائے۔ جواب:بشرط صحت سوال فوت شدہ بیٹا اپنے باپ کی جائیداد کا شرعی وارث نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی کی جائیداد سے بطور وارث حصہ لینے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ حصہ لینے والا میت کی موت کے وقت زندہ ہو جس طرح وراثت جاری ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ میت کی موت واقع ہو چکی ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ فوت شدہ آدمی سے بھی جائیداد سے بطور وراثت حصہ نہیں پا سکتا اور نہ ہی زندہ آدمی اپنی جائیداد سے بطور وراثت کوئی حصہ دے سکتا ہے، اس پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے، اگر قانونی طور پر کوئی جائیداد کسی فوت شدہ کے نام منتقل ہو چکی ہو تو شرعی طور پر اسے واپس لیا جا سکتاہے بلکہ اس کی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِ١ ﴾[1] ’’اگر وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کی طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو ورثاء کے درمیان صلح کرا دی جائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ غلط وصیت پتھر پر لکیر نہیں جو انمٹ ہو بلکہ اس کی اصلاح ضروری ہے تاکہ قیامت کے دن اسے مواخذہ سے بچایا جا سکے، شریعت کسی بھی غلط اقدام کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی اسے برقرار رکھتی ہے بلکہ اس کی اصلاح کا مطالبہ کرتی ہے احادیث میں ایسے متعدد واقعات ہیں، جن میں غلط وصیت کی اصلاح کا ذکر ہے۔ اس بنا پر اگر کوئی جائیداد کسی فوت شدہ بیٹے کے نام منتقل ہو چکی ہو تو شرعاً اسے واپس لیا جا سکتا ہے بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ کسی دوسرے وارث کی حق تلفی نہ ہو۔ بہرحال نہ تو فوت شدہ بیٹا جائیداد سے بطور وراثت حصہ لے سکتا ہے اور نہ ہی اس کے نام منتقل شدہ باپ کی جائیداد کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم) رضاعی بیٹے کا حصہ سوال:رضاعی بیٹے کو وراثت سے حصہ دینے کے متعلق شریعت اسلامیہ کا کیا حکم ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:علم فرائض کی اصطلاح میں کسی کے ترکہ سے حصہ پانے کے دو اسباب بیان کیے جاتے ہیں، ایک نکاح اور دوسرا نسب۔ رضاعت یعنی اجنبی عورت کا دودھ پینا، ان اسباب سے نہیں جو کسی کے ترکہ سے حصہ پانے کا باعث ہو، چنانچہ ارشاد
[1] 2البقرة:182