کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 316
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو اپنا متبنی بنا لیا تو ہم لوگ انہیں زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے، جب کہ مذکورہ آیت نازل ہوئی تو ہم انہیں زید بن حارثہ ہی کہنے لگے۔ [1] اس طرح یہ بھی حکم ہے کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب نہ کرے، جس نے کسی دوسرے کو جان بوجھ کر اپنا باپ ظاہر کیا وہ کافر ہو گا۔ [2] اس طرح وراثت کا مسئلہ ہے کہ لے پالک بیٹا حقیقی بیٹے کا مقام نہیں لے سکتا، یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی کے دو باپ ہوں، باپ وہی ہے جس کے نطفہ سے وہ پیدا ہوا ہے بشرطیکہ جائز نکاح سے ہو، دوسرا کوئی شخص نہ اس کا حقیقی باپ ہو سکتا ہے اور نہ وہ اس کا حقیقی بیٹا بن سکتا ہے۔ متبنی اپنے نقلی باپ کا وارث نہیں بن سکتا اور نہ باپ اس متبنی کا وارث ہو سکتا ہے۔ حقیقی بیٹا ہی باپ کا وارث ہو گا اور حقیقی باپ ہی بیٹے کا وارث قرار دیا جائے گا، ہر شخص اپنے متبنی کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر سکتا ہے اسی طرحِ متبنی بھی اپنے نقلی باپ کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کر سکتا ہے، عرب معاشرہ میں یہ رسم عام تھی جس کی اصلاح اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لے پالک کی مطلقہ بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہ سے نکاح کا حکم دیا جس کی تفصیل سورۂ احزاب آیت نمبر۳۷ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس طرح پردہ کا مسئلہ ہے کہ لے پالک جس گھر میں رہتا ہے، اس میں جتنی بھی غیر محرم عورتیں ہیں وہ اس کے لیے لے پالک بن جانے سے محرم نہیں بن جائیں گے، مثلاً پرورش کنندہ کی بیوی اور اس کی بیٹیاں لے پالک کے لیے غیر محرم ہیں اور شرعی طور پر اس سے پردہ کرنے کی پابند ہیں، کھلی آزادی بہت سی معاشرتی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور عملاً ہمارے معاشرہ میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں، اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ پرورش کنندہ اپنی کسی بیٹی کا اس سے نکاح کر دے، بہرحال اسلام نے اس کی اس قدر حوصلہ افزائی نہیں کی ہے جتنی ہمارے ہاں خیال کی جاتی ہے لے پالک کسی صورت نقلی باپ کا وارث نہیں بن سکتا اور نہ ہی وہ اصل بیٹے کا مقام لے سکتا ہے۔ (واللہ اعلم) والدین، بیوی، ایک بیٹا اور دو بھائی کا وارث بننا سوال:ہمارا بھائی فوت ہو گیا ہے، اس کے والدین، بیوی ایک بیٹا اور دو بھائی زندہ ہیں، اس کی جائیداد کیونکر تقسیم ہو گی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں ہمارا مسئلہ حل فرمائیں۔ جواب:والدین میں ہر ایک کو چھٹا، چھٹا حصہ، بیوی کو آٹھواں اور باقی بیٹے کو ملے گا، اس صورت میں بھائی محروم ہیں، کل جائیداد کے چوبیس حصے کر لیے جائیں، پھر درج ذیل تفصیل سے اسے تقسیم کر لیا جائے۔ 1)والد: چھٹا حصہ: 4 2 )والدہ: چھٹا حصہ: 4 3)بیوی: آٹھواں حصہ:3 4)بیٹا: باقی ماندہ:13 5)بھائی: محروم بیٹے کو عصبہ کی حیثیت سے دیا جائے گا، اس کی موجودگی میں بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، التفسیر: ۴۸۸۲۔ [2] صحیح بخاری، المناقب: ۳۵۰۸۔