کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 313
جواب:اگر مرنے والے کے ذمے کوئی قرض وغیرہ نہیں اور نہ ہی اس نے کوئی وصیت کی ہے تو اس کی بیوی کل جائیداد سے آٹھویں حصہ کی حقدار ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ ﴾[1] ’’اگر مرنے والے کی اولاد ہے تو بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘ اس کی بیٹیوں کی کل جائیداد سے دو تہائی دیا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ ﴾[2] ’’اگر لڑکیاں (دو یا) دو سے زیادہ ہیں تو انہیں کل ترکہ سے 2/3دیا جائے۔ ‘‘ بیوی اور بیٹیوں کو حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے اس کے حقدار میت کے بھائی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مقررہ حصہ لینے والوں کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کے لیے ہے۔‘‘ [3] سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کو چوبیس حصوں میں تقسیم کر لیا جائے، ان میں سے تین حصے بیوی کو، سولہ حصے بیٹیوں کو اور باقی پانچ حصے بھائیوں کو دے دئیے جائیں، اس طرح کل جائیداد کو تقسیم کیا جائے۔ بیوی کا کل جائیداد پر قبضہ کر لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) عیسائی باپ کا ورثہ سوال میرا والد بہت مالدار آدمی تھا لیکن وہ عیسائی مذہب رکھتا تھا، میرے دو بھائی اور ایک بہن بھی عیسائی ہیں، جب کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں، میرے والد فروری میں کسی حادثہ سے دو چار ہو کر فوت ہو گئے ہیں، اس کا بہت سا ترکہ ہے، کیا میں اس کی جائیداد سے حقدار ہوں؟ جواب ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام پر استقامت دے، دولت اسلام کے مقابلہ میں دنیا کا مال و متاع کوئی حیثیت نہیں رکھتا، شرعی مسئلہ کی وضاحت اس طرح ہے کہ کفر پر مرنے والے شخص کی مسلمان اولاد وارث نہیں ہو سکتی، کیونکہ اسلام لانے سے کفر سے متعلقہ تمام رشتے کٹ جاتے ہیں، چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان، کافر کا اور کافر، کسی مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘ [4] بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تو جائیداد کی تقسیم سے پہلے اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو اسے بھی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسلمان بیٹا اپنے کافر باپ کی جائیداد کا حقدار نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے جو اسلام کی دولت دی ہے وہ اسی کو کافی خیال کرے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۴/النساء:۱۲۔ [2] ۴/النساء:۱۱۔ [3] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۳۵۔ [4] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۶۴۔