کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 310
بھتیجیوں کا وارث بننا سوال:ایک آدمی فوت ہوا، اس کے دو بھتیجے اور دو بھتیجیاں زندہ ہیں، اس کے وارث صرف بھتیجے ہوں گے یا بھتیجیاں بھی اس سے حصہ لیں گی؟ وضاحت فرمائیں۔ جواب:صورت مسؤلہ میں صرف بھتیجے ہی وارث ہوں گے، بھتیجیوں کو جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، کیونکہ بھتیجے عصبہ کی حیثیت سے لیتے ہیں، جب کہ بھتیجیاں عصبہ نہیں کیونکہ، شرعی طور پر صرف چار وارث ایسے ہیں جو اپنی بہنوں کو عصبہ بناتے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: 1) اگر میت کا بیٹا اور بیٹی ہے تو بیٹا اور بیٹی دونوں وارث ہوں گے، کیونکہ بیٹا عصبہ ہے اور اس نے اپنی بہن کو عصبہ بنا کر جائیداد میں شریک کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ١ۚ ﴾[1] ’’اللہ تمہیں اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ ترکہ سے لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے۔‘‘ 2) اگر میت کا پوتا اور پوتی ہے تو پوتا اپنی بہن کو عصبہ بنائے گا کیونکہ یہ بیٹے کے قائم مقام ہے۔ 3) اگر میت کا حقیقی بھائی اور حقیقی بہن زندہ ہے تو حقیقی بھائی اپنی بہن کو عصبہ بنا کر جائیداد میں شریک کر لے گا۔ 4) اگر میت کا پدری بھائی اور پدری بہن زندہ ہے تو پدری بھائی اپنی بہن کو عصبہ بنا کر جائیداد میں شریک کر لے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ كَانُوْۤ اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ١ ﴾[2] ’’اگر میت کے بہن بھائی ہوں تو مذکر کو مؤنث کے مقابلہ میں دو گناہ حصہ دیا جائےگا۔‘‘ بیوہ، والدین اور بہن بھائیوں کے حصص سوال:ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں سے بیوی، ماں، باپ، دو بہنیں اور دو بھائی ہیں، اس کی کوئی اولاد نہیں ، ہر ایک وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟ جواب:صورت مسؤلہ میں چونکہ میت لا ولد ہے اس لیے اس کی بیوی کو 1/4 حصہ ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ ﴾[3] ’’اگر تمہاری اولاد نہیں ہے تو تمہاری بیویوں کو جائیداد سے چوتھا حصہ ملے گا۔‘‘ والدہ کو چھٹا حصہ دیا جائے گا کیونکہ میت کے متعدد بہن بھائی موجود ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ ﴾[4]
[1] ۴/النساء:۱۱۔ [2] ۴/النساء:۱۷۶۔ [3] ۴/النساء:۱۲۔ [4] ۴/النساء:۱۱۔