کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 31
’’اتفاقاًایسا ہوا‘‘کہنا
سوال:’’اتفاقاً ایسا ہوا‘‘ کیا اس قسم کے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں کیونکہ بظاہر یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی صفت علم کے منافی معلوم ہوتے ہیں؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب:اگر کوئی چیز غیر شعوری اور غیر متوقع طور پر سامنے آجائے تو اس وقت ’’اتفاقاً ایسا ہوا‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، انسان کے حوالے سے کسی چیز کا اتفاقاً پیش آجانا تو امر واقع ہے، ایسے حالات میں ’’اتفاق‘‘ کے الفاظ استعمال کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے، احادیث میں بکثرت اس طرح کے اتفاقات مروی ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ایسا مروی ہے: ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ سے چکی پیسنے کی مشقت بیان کریں، کیونکہ آپ کو اطلاع ملی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام آئے ہیں لیکن اتفاق سے ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہ ہو سکی تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا… [1]
اس حدیث میں ایک اتفاق بیان ہوا ہے جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے پیش آیا لیکن اللہ تعالیٰ کے حوالے سے ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ عالم الغیب ہے، اس نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے، اس کے ہاں کوئی چیز اتفاق سے پیش نہیں آتی۔ البتہ انسان کو کوئی چیز کسی وعدہ یا پیشگی اطلاع کے بغیر اتفاق سے پیش آسکتی ہے، اس بنا پر انسان کے حوالے سے اتفاق کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال ممنوع اور سوء ادبی ہے۔
[1] بخاری النفقات:5361