کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 308
حق ہے، زندہ بھائی کو2/1 باپ کے ترکہ سے اور 8/3 بھائی کے ترکہ سے ملا، اس طرح وہ 8+1/2/3=8/7 کا حقدار ہے اور 8/1 مرحوم کی بیوہ کو ملے گا، سہولت کے پیش نظر مکان کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ بیوہ کو اور باقی سات حصے زندہ بھائی کے ہیں۔ مرحوم بہن کی اولاد اور مرحوم بھائی کی لے پالک بیٹی محروم ہے، انہیں مکان سے کچھ نہیں ملے گا۔ اگر مرحوم محمد علی یا اس کے مرحوم بیٹے نے کوئی وصیت کی ہو تو اسے تقسیم سے پہلے نافذ کیا جائے گا۔ (واللہ اعلم) چچا، دادی اور نانی وارث ہوں تو؟ سوال:ہمارے رشتہ داروں میں سے ایک شخص فوت ہوا ہے اس کا چچا، دادی اور نانی زندہ ہیں، اس کا ترکہ کیسے تقسیم ہو گا؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔ جواب:حدیث میں اس طرح کا ایک واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے حضرت قبیصہ بن ذویب فرماتے ہیں کہ ایک دادی نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر اپنی وراثت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’تمہارے لیے اللہ کی کتاب میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے اور نہ ہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے تمہارے لیے کسی چیز کا علم ہے، تم جاؤ میں لوگوں سے اس سلسلہ میں مشورہ کروں گا۔ پھر آپ نے لوگوں سے پوچھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا آپ نے دادی کو چھٹا حصہ دیا تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی اس وقت تھا؟ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اس امر کی گواہی دی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسے نافذ کر دیا، پھر ایک دوسری جدہ (نانی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور اس نے اپنی وراثت کا سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہارے لیے اللہ کی کتاب میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے لیکن یہی چھٹا حصہ ہے، اگر تم جمع ہو جاؤ یعنی دادی کے ساتھ نانی بھی ہو تو یہی چھٹا حصہ تمہارے درمیان تقسیم کیا جائے گا اور اگر تم میں سے کوئی اکیلی رہ جائے تو یہ حصہ اس کا ہے۔ [1] اسی طرح حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دادیوں کی وراثت کے متعلق دونوں کے درمیان چھٹا حصہ تقسیم کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ [2] چھٹا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے چچا کے لیے ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے شریعت کے مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر باقی بچ جائے وہ میت کے سب سے قریبی مرد رشتہ دار کو دے دیا جائے۔ [3] چونکہ میت کے چچا کے علاوہ دوسرا کوئی رشتہ دار صورت مسؤلہ میں مذکور نہیں ہے لہٰذا دادی اور نانی کا چھٹا حصہ نکال کر باقی پانچ حصے چچا کو ملیں گے۔ (واللہ اعلم) بہنوں اور چچا کا حصہ؟ سوال:ایک آدمی فوت ہوا، اس کی آٹھ بہنیں اور دو چچا ہیں، اس کا ترکہ کیسے تقسیم ہو گا؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیں۔
[1] مسند امام احمد، ص: ۲۲۵،ج۴۔ [2] مسند امام احمد: ۳۲۶،ج۵۔ [3] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۴۶۔