کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 307
بیٹیوں کی موجودگی میں بہن عصبہ ہوتی ہے یعنی مقررہ حصہ والوں سے بچا ہوا ترکہ پاتی ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی، پوتی، اور بہن کی موجودگی میں فیصلہ فرمایا، بیٹی کو آدھا دیا جائے، پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ ان کا 2/3 پورا ہو جائے پھر جو باقی بچے وہ بہن کا ہے۔ [1] سہولت کے پیش نظر ہم کل ترکہ کو 24 حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں، ان میں 8/1 یعنی تین حصے بیوہ کو 3/2 یعنی سولہ حصے چار بیٹیوں کو اور باقی پانچ حصے بہن کو دئیے جائیں۔ میت کی جائیدد بائیس کنال زرعی زمین ہے جس کے 440 مرلے بنتے ہیں، انہیں چوبیس پر تقسیم کیا تو ایک حصہ نکل آئے گا جو 18.33 ہے اس حساب سے بیوہ کا حصہ 55 مرلے، چار لڑکیوں کا حصہ294 مرلے، ہر لڑکی کو73.5 مرلے ملیں گے، باقی 91.65 مرلے بہن کو مل جائیں گے۔ (واللہ اعلم) بیٹے اوربہو میں مال کی تقسیم سوال:مرحوم محمد علی نے وفات کے بعد ایک مکان چھوڑا، جو اس کی دو بیٹوں کے پاس رہا، اس دوران ایک بیٹا فوت ہو گیا، جس کی کوئی حقیقی اولاد نہ تھی، صرف بیوی اور ایک لے پالک بیٹی زندہ ہے، مرحوم محمد علی کا دوسرا بیٹا صاحب اولاد زندہ موجود ہے، واضح رہے کہ مرحوم محمد علی کی ایک شادی شدہ صاحب اولاد بیٹی اس کی زندگی میں فوت ہو گئی تھی، اب سوال یہ ہے کہ زندہ بیٹے اور مرحوم بیٹے کی بیوہ کو ترکہ (مکان) سے کتنا حصہ ملے گا، نیز مرحوم بیٹے اور مرحومہ کی اولاد کو اس ترکہ (مکان) سے کچھ ملے گا یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ دیا جائے۔ جواب:صورت مسؤلہ میں مندرجہ ذیل علم الفرائض کے قواعد کو پیش نظر رکھا جائے گا۔ 1) کسی کے ترکہ کا وہ رشتہ دار وارث ہوتا ہے جو صاحب ترکہ کی وفات کے وقت زندہ ہو، اس کی وفات سے پہلے فوت شدگان وارث نہیں ہوں گے، اس قاعدے کے پیش نظر مرحوم محمد علی کی شادی شدہ بیٹی جو اس سے پہلے وفات پا چکی ہے ترکہ سے حصہ نہیں پائے گی۔ 2) قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور والے رشتہ دار محروم ہوتے ہیں، اس بنا پر بیٹیوں کی موجودگی میں مرحومہ بیٹی کی اولاد محروم ہو گی، انہیں ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا۔ 3) وراثت لینے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہاں خونی رشتہ قائم ہو، اس بنا پر لے پالک، جائیداد سے محروم ہوتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد مرحوم محمد علی کے ترکہ (مکان) کے حقدار اس کے دو بیٹے تھے۔ ان میں وہ مکان آدھا ، آدھا تقسیم ہو گا، جب مرحوم محمد علی کا بیٹا فوت ہوا تو وہ اپنے باپ کے آدھے مکان کا حقدار بن چکا تھا، اس کی وفات کے وقت، اس کی بیوہ، اس کا بھائی اور لے پالک بیٹی زندہ تھے، لے پالک تو محروم ہے اور مکان سے اس کا حصہ…2/1 اس کی بیوہ اور بھائی میں تقسیم ہو گا، بیوہ کو 2/1 کا 4/1 ملے گا۔ یعنی 2/1 کا 4/1=8/1 کی حقدار ہو گی اور 1/2 سے بیوہ کا حصہ نکال کر (2/8-1/1) باقی 8/3 بھائی کا
[1] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۳۶۔