کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 304
بہنیں اور دو پدری بھائی، قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کس کو کیا ملے گا؟ جواب:لاولد فوت ہونے کی صورت میں بیوہ کو چوتھا حصہ ملتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ ﴾[1] ’’اور اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو بیویوں کا چوتھا حصہ ہے۔‘‘ متعدد بہن بھائیوں کی موجودگی میں والدہ کو چھٹا حصہ ملتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ﴾[2] ’’اور اگر میت کے بہن بھائی ہیں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘ صورت مسؤلہ میں میت کلالہ ہے، دو یا دو سے زیادہ بہنوں کو دو تہائی دیا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ١ ﴾[3] ’’اور اگر بہنیں دو ہوں تو ان کو ترکہ کا دو تہائی ملے گا۔‘‘ پدری بھائی عصبہ ہیں، اگر مقررہ حصہ لینے والوں سے کچھ پس انداز ہوا تو انہیں مل جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کے حصے اور جو بچ جائے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کا ہے۔ [4] واضح رہے کہ میت کے پدری بھائی، اس کی حقیقی بہنوں کو عصبہ نہیں بنائیں گے کیونکہ علم فرائض کی رو سے صرف چار رشتہ دار اپنی بہنوں کو عصبہ بناتے ہیں اور وہ خود بھی عصبہ ہوتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں: 1 )حقیقی بیٹا اپنی بہن کو عصبہ بنائے گا، 2) پوتا اپنی بہن کو عصبہ بناتا ہے۔ 3 )حقیقی بھائی اپنی بہن کو عصبہ بناتا ہے۔ 4) پدری بھائی اپنی بہن کو عصبہ بناتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی رشتہ دار اپنی بہن کو عصبہ نہیں بناتا مثلاً: چچا خود عصبہ ہوتا ہے لیکن اپنی بہن یعنی میت کی پھوپھی کو عصبہ نہیں بناتا، اسی طرح بھتیجا خود عصبہ بنتا ہے لیکن اپنی بہن یعنی میت کی بھتیجی کو عصبہ نہیں بناتا، صورت مسؤلہ میں حقیقی دو بیٹوں کا رشتہ میت کے ساتھ زیادہ مضبوط ہے لہٰذا پدری بھائی میت کی حقیقی بہنوں کو عصبہ نہیں بنائیں گے بلکہ صرف وہی عصبہ کی حیثیت سے بچا ہوا مال لیں گے۔ درج بالا مسئلہ میں ترکہ کے کل بارہ حصے کر لیے جائیں ان میں چوتھائی یعنی ۳ حصے بیوہ کو، ۲ حصے والدہ کو اور دو تہائی یعنی آٹھ حصے دو بہنوں کو دئیے جائیں جب ان حصوں کو جمع کیا تو یہ تیرہ بنتے ہیں جب کہ مسئلہ بارہ سے بنا ہے لہٰذا تقسیم کے لیے بارہ کے بجائے تیرہ کو بنیاد بنایا جائے گا اسے علم فرائض میں عول کہا جاتا ہے، دو پدری بھائیوں کے لیے کچھ نہیں بچا لہٰذا وہ محروم ہیں، تقسیم بایں طور پر ہو گی: والدہ ۲، بیوہ۳ ،دونوں حقیقی بہنیں ۸ اور دونوں پدری بھائی محروم ہوں گے۔
[1] ۴/النساء:۱۲۔ [2] ۴/النساء:۱۱۰۔ [3] ۴/النساء:۱۷۶۔ [4] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۳۲۔