کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 302
بھائی: 11/8=3/8+1 مرلہ بہن 11/16=3/16+1/2 دوسری بہن : 11/16=3/16+1/2 بیوہ جمیلہ 1/4 آسانی کے لیے شوکت علی مرحوم کے تین مرلوں کو اڑتالیس حصوں میں پھیلا دیا جائے، ان اڑتالیس حصوں سے چار حصے محمد اسلم کی بیوہ جمیلہ کو، بائیس حصے اس کے بھائی اور گیارہ حصے اس کی ایک بہن اور گیارہ حصے ہی دوسری بہن کو دے دئیے جائیں۔ مرلوں کی تقسیم کے لیے پٹواری کی خدمات حاصل کر لی جائیں۔ (واللہ اعلم) ورثا، بھائی اور بہن ہوں تو حصص سوال:ہمارے بڑے بھائی لا ولد فوت ہوئے ہیں، اس کے شرعی ورثاء بیوہ، چار بھائی اور ایک بہن ہے، انہوں نے رہائش کے لیے ایک مکان بنایا تھا جو اپنی بیوی کے نام کر دیا تھا، ملازمت کے دوران انہوں نے ایک پلاٹ بھی خریدا۔ انہوں نے مکان اور پلاٹ فروخت کر کے ایک تعمیر شدہ مکان ۳۳ لاکھ میں خریدا، اس نئے مکان میں چار سال رہائش رکھنے کے بعد وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اب ان کی بیوی کا مطالبہ ہے کہ نئے مکان کا نصف مجھے دیا جائے کیونکہ اس کی خریداری میں میرے نام مکان کی قیمت شامل ہے جو اس کی نصف ما لیت کے برابر ہے، اس کے بعد باقی نصف سے میرا شرعی حصہ دیا جائے، کیا بیوہ کا موقف درست ہے نیز شرعی طور پر ورثاء کو کتنا ، کتنا حصہ آتا ہے؟ جواب:مرحوم نے اپنا پہلا رہائشی مکان تعمیر کر کے اپنی بیوی کے نام کر دیا اس کی دو صورتیں ہیں، پہلی صورت یہ ہے کہ انہوں نے ٹیکس وغیرہ سے بچنے کے لیے اس مکان کو اپنی بیوی کے نام کر دیا ہو اور ا س کی وضاحت بیوی کے سامنے کر دی ہو تو اس صورت میں تو وہ مکان مرحوم کی ملکیت ہو گا اور صرف قانونی طور پر بیوی کے نام تصور کیا جائے گا، دوسری صورت یہ ہے کہ انہوں نے حقیقی طور پر بیوی کو ہبہ کر دیا ہو اور اس کے نام حکومت کے کاغذات میں رجسٹری کرا دیا ہو۔ اس صورت میں بیوی اس مکان کی مالکہ ہو گی، دوسرا کوئی اس میں شریک نہیں ہے لیکن اس امر کا بدستور احتمال ہے کہ جب بیوی کے نام مکان کو فروخت کیا گیا تو بیوی نے وہ رقم خاوند کو ہبہ کے طور پر دے دی ہو جس طرح مرحوم نے مکان اسے ہبہ کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ دوسرا خرید کردہ مکان خاوند کے نام ہے، رجسٹری وغیرہ میں بیوی کا کوئی نام نہیں ہے، اگر بیوی کو اس میں شریک کرنا چاہتا تو آدھا مکان بیوی کے نام کر سکتا تھا لیکن اس نے اپنے نام پر ہی نیا مکان خریدا ہے، اگر بیوی نے اپنے مکان کی قیمت بطور قرض خاوند کو دی اور پھر اس نے پلاٹ کی قیمت ملا کر نیا مکان خریدا تو تقسیم سے پہلے بیوہ کا سولہ لاکھ قرض اتارنا ہو گا اور وہ مکان کی موجودہ قیمت سے الگ کیا جائے، اس صورت میں وہ سولہ لاکھ کی واپسی کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے، مکان میں صرف حصہ لینے کا دعویٰ درست نہیں کیونکہ وہ مرحوم نے اپنے نام پر خریدا ہے اور تاحال اسی کے نام پر ہے، اس وضاحت کے بعد پہلی صورت میں نیا خرید کردہ مکان مرحوم کا ترکہ شمار ہو گا اور اسے تمام ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا اور دوسری صورت میں بھی مکان تو شرعی ورثاء میں تقسیم ہو گا البتہ اس کے ذمہ ۱۶ لاکھ قرض اس کی متروکہ جائیداد سے ادا کرنا ہو گا، دونوں صورتوں میں تقسیم کا طریقہ درج ذیل ہے: