کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 301
ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ایک ثلث کی وصیت کر دو لیکن تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔‘‘ [1] صورت مسؤلہ میں اگر فوت ہونے والی لڑکی کی وصیت ایک تہائی مال سے ہے تو اس پر عمل کیا جائے بصورت دیگر اسے کم کر کے ایک تہائی کر دیا جائے چونکہ کل ترکہ اکیس لاکھ ہے جس کی ایک تہائی سات لاکھ بنتی ہے اس لیے سات لاکھ روپیہ وصیت کے مطابق مسجد کو دے دیا جائے۔ اس کا وصیت کے ذریعہ ترکہ میں بھائیوں کو شریک نہ کرنا شرعاً جائز نہیں بلکہ وصیت سے باقی ترکہ دو بھائیوں اور تین بہنوں میں تقسیم ہو گا، چونکہ بھائی کو ایک بہن سے دوگنا حصہ ملتا ہے اس لیے باقی جائیداد کے سات حصے کر لیے جائیں پھر ہر بھائی کو دو حصے اور ہر بہن کو ایک ایک حصہ دیا جائے، وصیت نکال کر باقی جائیداد چودہ لاکھ ہے اس لیے چار، چار لاکھ ہر بھائی کو اور دو، دو لاکھ ہر بہن کو دیا جائے، تمام زیورات بہنوں کو دینا اور بھائیوں کو محروم کرنا شرعاً جائز نہیں۔ (واللہ اعلم) بھائی، بہن اور بیوی کا حصہ سوال:جمیلہ نامی لڑکی کا نکاح اسلم نامی شخص سے ہوا، نکاح کے بعد اسلم کے والد شوکت علی فوت ہو گئے، جب کہ والدہ پہلے سے فوت شدہ تھیں، شوکت علی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، جائیداد چونکہ شوکت علی کے نام تھی اور تقسیم سے پہلے اس کے بیٹے اسلم کا انتقال ہو گیا، پس ماندگان میں بیوہ، ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں، شوکت علی کی جائیداد تین مرلہ ہیں، اس سے اسلم کی بیوہ جمیلہ کو کتنا حصہ ملے گا؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:علم فرائض میں تقسیم در تقسیم کو مناسخہ کہتے ہیں، صورت مسؤلہ بھی اسی قسم سے ہے، اس میں متروکہ جائیداد کو دو مرتبہ تقسیم کیا جائے گا پہلی مرتبہ شوکت علی کی جائیداد تین مرلہ تقسیم ہوں گے پھر اس کے بیٹے محمد اسلم کا حصہ دوبارہ تقسیم ہو گا، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: پہلی تقسیم: شوکت علی کے ورثاء دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں شریعت میں بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دو گنا حصہ دیا جاتا ہے، اس لیے جائیداد کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، ان میں سے دو، دو حصے بیٹے کو اور ایک، ایک بیٹی کو ملے گا، تین مرلہ سے ایک، ایک مرلہ دونوں بیٹوں کے لیے اور نصف نصف مرلہ ہر دو لڑکیوں کو دیا جائے گا۔ دوسری تقسیم: محمد اسلم کو اپنے باپ کی جائیداد ایک مرلہ ملا ہے، اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء بیوہ جمیلہ، ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں، اسلم چونکہ لا ولد تھا اس لیے قرآن کریم کی وضاحت کے مطابق بیوہ جمیلہ کو اس کی جائیداد سے چوتھا اور باقی 4/3اس کے بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کیے جائیں کہ بھائی کو بہن سے دو گنا حصہ ملے۔ اس بنا پر محمد اسلم کا حصہ ایک مرلہ حسب ذیل تفصیل سے تقسیم ہو گا: بیوہ جمیلہ: 1/4 مرلہ بھائی 3/8 مرلہ بہنیں 3/16 بہن 3/16 بھائی بہنوں کو والد سے بھی حصہ ملا تھا اس لیے ان کا مجموعی حصہ حسب ذیل ہو گا۔
[1] صحیح بخاری الوصایا:۲۷۴۳۔